Monday 25 January 2016

مشت زنی کی عادت اور اس کا انجام


 مردانہ کمزوری کا علاج
ایک روز ایک مریض میرے پاس آیا اور اس نے اپنا مسئلہ کچھ اس طرح بیان کیا ۔
میری عمر اس وقت25 سال کی ہے۔ دوسروں کے دیکھنے میں کوئی بیماری نہیں ہے۔ لیکن میں مرد کہلانے کے قابل نہیں ہوں۔ پانچ سال شادی کو ہو چکےہیں۔ ایک روز بھی 

عورت کے نزدیک نہیں گیا۔ میری یوں تو جو انی کی عمر ہے۔ لیکن عورت کے نزدیک جانے سے اتنا گھبراتا ہوں۔ جیسے بلی سے 
  چوہا  وجہ اس کی یہ ہے کہ جس وقت میری عمر 15 سال کی تھی۔ میں نے والدین سے کراچی بورڈنگ ہاوس میں داخل ہونے کی التجا کی جو منظورہو گئ میں وہاں داخل ہو گیا۔ بس 

یوں سمجھیے کہ دوزخ کی دنیا میں داخل ہو گیا۔ میں اپنی کلاس میں سب سے ہوشیار تھا۔ اس لئے میرے ہم جماعتی اکثر میرے گرد ہی جمع رہا کرتے تھے۔ چھ ماہ اسی طرح گزر گئے۔ 

اسکول میں دس روز کی چٹھیاں ہوہیں سپرنٹنڈنٹ صاحب اپنے گھر جانے لگے۔ تمام انتظام میرے سپرد ہی کیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے چلے جانے پر ایک خوبصورت لڑکا تھا۔ 

اس سے غلام بازی شروع ہو گئ۔ ایک دوست نے جلق لگانے کی بھی تر غیب دی۔ اب کیا تھا جلق کی عادت پڑ گئ۔ دونوں آپس میں مل مل کر خزانہ زندگئ کو لٹانا اور برباد کرنا 

شروع کر دیا۔ تعطیلات ختم ہو گئ۔ لیکن ہماری پریکٹس روز بروز بڑھنے لگی۔ کسی طرح انٹرنس تو پاس کر لیا۔ کالج میں پہنچا۔ لیکن وہ عادت ترک نہیں ہوئی بلکہ وہاں اور بھی چند 

دوستوں کی وجہ سے خوب رنگ آنے لگا۔ والدین نے خیال کیا کہ محنت کی وجہ سے لڑکا کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ہائے افسوس یہ کسی کو خیال نہ آیا کہ انٹرنس پاس ہونے کے ساتھ 

ساتھ جلق کا کالج بھی پاس کر چکا ہوں۔ جس کی وجہ سے گریجویٹ کی ڈگری یعنی احتلام حاصل ہو چکا ہے۔اگر کسی ہفتہ میں ہر روز نہ ہوا تو دوسرے روز معمول تھا۔ آخرکار آلہ 

تناسل کی رگیں بالکل ہی ماری گئیں۔ والدین نے کمزوری کی حالت کا خیال کر کے کالج سے اٹھا لیا۔ شادی کر دی گئی۔عورت کی شکل سے خوف معلوم ہوتا ہے۔ ذرا   دیکھتے 
ہی فوراً انزال ہو جاتا ہے۔ ایک روز اپنی عورت سے تمام ماجرہ کہہ دینا پڑا۔ سوائے رونے کے اور وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ دن رات میرے غم اداس رہنے لگی۔ اس کی اداسی 

دیکھ کر دو تین بار خودکشی کا ارادہ ظاہر کیا۔ لیکن اس کی محبت اور شریفانہ برتاو نے آج تک میری زندگی کے چراغ کو گل نہیں ہونے دیا۔ عرصہ دو سال سے برابر علاج کر رہا 

ہوں۔ کوئی ایسا حکیم وید ڈاکٹر نہیں چھوڑا جو کہ ان بیماریوں کے علاج میں اپنے آپ کو قابل خیال کرتے ہیں ہزاروںروپیہ برباد کردیا۔ لیکن ابھی تک وہی ڈہاک کے تین پات 

ہیں۔ اب زیادہ آپ سے اور کیا بیان کرو۔قارئین ! اس قدر بیان کرنے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ میں نے محبت سے بہت دلاسہ دیا۔ اور اللہ کا نام لے کر اس کا 

علاج شروع کیا۔ تین ماہ تک برابر علاج کرنے پر اس کی حالت بالکل ٹھیک ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اس وقت چار بچوں کا باپ ہے۔   


Mardana kamzori ka ilaj

 مردانہ کمزوری کا علاج

مایوسی گناہ ھے ۔ مردانہ کمزوری کا علاج
Enlargement Tila and Capsules 
Cell No./ Whats App +923006397500
۞ اگر عضو کا سائز چھوٹا ھے یا پتلا ھے اور کمزور ھے تو ھمارے علاج سے موٹا ھوسکتا ھے لمبائی بڑہ سکتی ھے۞قیمت:نارمل سائز کورس 5000 روپے
سپرسائز کورس قیمت 8000 روپے 
ایکسٹرا سائز کورس 15000 روپے
فوری انزال ,جریان،احتلام،سرعت انزال کا مکمل علاج ۞ ۔

سوزاک

                 سوزاک
وجوہات و تشخیص: یہ ایک متعدی مرض ہے جو گونو   کاکل بیکٹر یا  یا جراثیم سوزاک سے پیدا ہوتی
ہے۔پیشاب کی نالی میں زخم ہو جاتا ہے۔ خون  اور پیپ آنا شروع ہو جاتا ہے۔
   ابتداء میں نائزہ کے سرے پر خراش ہوتی ہے پھر درد ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پیشاب چیر کر
درد سے آتا ہے۔ اس مرض کے عموماً چار درجے ہوتے ہیں۔
پہلا درجہ: اس کا  دورہ آٹھ پہرسے  دو دن تک رہتا ہے۔ صرف نائزہ کے سرے پر خراش اور
کچی لسی کی مانند پانی خارج  ہوتا ہے۔
دوسرا درجہ: اس میں سرخی،ورم اور پیشاب کرتے وقت خون آتا ہے اورخراش میں درد ہوتا ہے۔
تیسرا درجہ: اس درجہ میں پیشاب کرتے وقت تکلیف کم ہوتی ہے اور پیپ نکلتی ہے۔
چوتھا درجہ: قر حہ اس میں زخم پرانا ہوتا ہے۔ اور پیپ خارج ہوتی ہے سابقہ تکلیف کم ہو
جاتی ہے۔ جب مرض اس درجے پر پہنچ جائے  تو تمام عمر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جب تک مکمل علاج نہ
کرایا جائے یہ مرض بازاری عورتوں،حائضہ،لیکوریا والی عورت کے ساتھ جماع کرنے سے کثرت
شراب خوری، گرم مصالحہ یا دیگر گرم اشیاء کے  کثرت استعمال سے ہو جاتی ہے۔منی خارج ہوتے
وقت روکنے سے بھی پیشاب کی نالی میں زخم ہو جاتا ہے۔
علاج: طب جدید نے سوزاک کے علاج میں اس قدر ترقی کی ہے کہ  اگر مریض وقت پر   آ جائے تو
بیماری چند گھنٹوں کے اندر رفع ہو جاتی ہے۔جملہ ادویہ قدیم وجدید سے سلفا  گروپ،انٹی بایوٹک،
میڈیسن
مقدار خوراک: چار ٹکیہ، ہر تین گھنٹے بعد  2 ٹکیہ پانی کے ساتھ
فوائد: نئے و پرانے سوزاک کا مجرب علاج ہے۔ سوزاک کے جراثیموں کو مارتی ہے اس کے علاوہ نمونیہ،
ذات الجنب، ڈبہ اطفال،پیچش،سرسام، خون کی خرابی، کان  بہنا، پھوڑے پھنسی،سوزش غدہ قدامیہ،
سوزش اعضائے تناسل،مردانہ و زنانہ پیٹ کی متعدد بیماریاں خناق،انفلوئنزا،وبائی،بچوں کے جسم پر
چھالے نکلنامیزلس خسرہ پر سوتی بخار   وغیرہ کے لئے شافی علاج ہے۔ نہایت مفید و مجرب  ہے ہر
انگریزی دوا فروش سے دستیاب ہو سکتی ہے۔
سلفا تھازول   مقدار خوراک ایک گولی سے دو گولی دن میں تین بار ہمراہ آب تازہ۔
نوٹ:سلفوئنامائیڈز کے مرکبات کے دوران استعمال پا نی کثرت سے استعمال       کرنا چاہیے۔مکسر
سوزاک۔آئل صندل،10       منم آئل کرپے ہا 10  منم، پوٹا شیم کارب 20 گرین میگروا میں 15 گرین
ٹنکچر بیلا ڈونا 5 منم ٹنکچر ہائیو سائمس 15 منم ایکوا کلو روفارم    ایک اونس ایسی ایک ایک خوراک ہر چار
گھنٹے بعد دیں پرانے سے پرانا سوزاک ایک ہفتہ کے استعمال سے دور ہو کر شفا ہو جاتی ہے۔
اکسیر سوزک: علاج بالکیمیا نے جہاں انسان کو دیگر تباہ کن امراض سے   نجات      دلائی ہے۔ وہاں
انسان کے بدترین                                        دشمن مرض سوزاک کا بھی قلع قمع کردیا ہے۔ اور عصر حاضر میں ایسی ایجادات پیش
کی ہیں۔ جن کے استعمال سے جملہ علامات رفع ہو کر مرض ہمیشہ کے لیے نیست ونابود ہو جاتا ہے۔
تجربہ شدہ ہے۔ اور معمول مطب ہے۔
اکسیر سوزاک:رسکپور ایک تولہ، مردار سنگ،کتھ، کبابہ  ہر ایک چھ ماشہ بکری کادودھ   ایک پاو 
لے کر آٹھ گھنٹہ کھرل  کریں۔ شیشی میں محفوظ رکھیں۔
مقدار خوراک:   صبح ایک رتی شام ایک رتی مکھن یا قیمہ میں ملا کر کھائیں۔
فوائد:  آتشک، سوزاک دنیا پر 101 قروح خبیثہ، نواسیر، بواسیر،خنازیر وغیرہ کے لئے تریاق خاص کا
حامل ہے۔
سوزاک ( کانوریا) کاعلاج:
1۔ پنسلین  کرسٹلا ئن 5 لاکھ ایک ٹیکہ صبح، ایک شام پانچ دن تک لگائیں۔
2۔ سلفا ڈایازین گولیاں 2 گولیاں صبح 2 دوپہر اور 2 شام کھلائیں
اور پانی خوب پلائیں یا
3۔ سٹر پٹومائی سین پروکین پنسلین انجکشن ایک
کیپسول صبح ایک شام دس دن تک کھلائیں او ر ساتھ وٹامن بی کمپلیکس کی 5  گولیاں دیں۔
سوزاک کی  گولیاں: جراثیمی دریافت کے بعد جب یہ معلوم ہو گیا کہ  سوزاک بھی جراثیمی مرض
ہے اور یہ مرض گونو کاکل جراثیم سے پیدا ہوتی ہے ۔تو قدرت  نے ان جراثیموں کی نیست ونابود
کرنے کے لئے سلفا ڈرگس کی طرف   رہنمائی کی چنانچہ سلفا ڈرگس سے ایک مرکب جو سوزاک کے
جراثیم کو تباہ کرنے میں ایٹم بم کی حیثیت   رکھتا ہے یہ ہے:
سلفا ڈایا زین، مقدار خوراک 2 ٹکیہ ہر چوتھے گھنٹے بعد        7  بجے سے 11 بجے رات تک پانچ دن جاری
رکھیں۔اس سے پیشاب کی جملہ علامات  ،پیشاب         کی جلن،درد، خون اور پیپ آنا، زخم وغیرہ 2 دن
میں ہی موقوف ہو جاتے ہیں اور نمک  پیدا  کرنے والے  جراثیم کا قلع قمع کر دیتی ہے۔
نوٹ :سلفا ڈایازین کے علاوہ سبازول ایم بی 760 سلفا پیرا ڈین 693 سلفاٹیرا ئیڈز جن  کی مقدار خوراک
2 ٹکیہ ہر چوتھے گھنٹے بعد پانی کے ساتھ دیں۔ ابتدائی سوزاک جب کہ قرحہ(سٹرکچر) نہ ہو۔ اکسیر کا حکم
رکھتی ہے۔ 2 دن میں ہی تمام علامات میں نمایاں کمی ہو جاتی ہےچار  دن میں مکمل آرام ہو جاتا ہے۔
سلفا ڈرگس کے دورانِ استعمال خوب پانی پلانا چاہیے۔ گوشتْ گڑْگرم مصالحہ اور گندھک
کے اجزاء سے پرہیز لازمی ہے۔
غذازود  ہضم     ،کھچڑی  ،چاول  دودھ دال مونگ پھلکا سے دیں۔ اگر سٹرکچر ہو تو پچکاری والا 
نسخہ استعمال کریں۔ اس سے قرحہ وغیرہ ختم ہو جائے گا۔
پچکاری سوزاک:شازونادر  ایسے مریض  بھی ہوتے ہیں۔ جن کو بہت   پرانا سوزاک ہوتا ہے اور
پیشاب نالی میں سٹرکچر (قرحہ) بن جاتا ہے اور ہر قسم کی  مجرب ادویہ کے استعمال سے بھی پیپ وغیرہ
بند نہیں ہوتی۔ ایسی حالت میں زخم کو صاف  کو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ پچکاری کے لئے کئی
ادویہ مثلاً سلور نائٹریٹ نیلا تھوتھا پوٹاشیم  پر منگنیٹ  زنک سلفاس وغیرہ بھی استعمال کی جا تی ہے۔لیکن
یہ نسخہ ہزار ہا دفعہ کا تجربہ شدہ ہے  جس کے دودن کے استعمال سے پرانے سے پرانا قرحہ رفع ہو جاتا
ہے۔
نسخہ: مردہ سنگ 2 تولہ پھٹکری بریاں               3 تولہ دسونت 2 تولہ  سرمہ سیاہ      2.5  تولہ نیلا تھوتھا   بریاں 3
ماشہ   کتھ سفید 2.5  تولہ رسکپور 4 ماشہٗ  جملہ  ادویہ کو نہایت باریک پیس لیں کہ بالکل ملائم ہو
جائیں

کان درد

                                                                                                                            کانوں کی بیماریاں                         
بیرونی، درمیانی، اور اندرونی کان کی تراوش جس میں موج ہوا کا طریقہ انتقال بتایا  گیا ہے۔
جس توازن سے دماغ کے عصبی ریشے جو نیم ہلالی نالیوں  سےدماغ کو جاتے ہیں نیم ہلالی نالیاں درمیانی کان کی ہڈی
 کی تین ہڈیاں (مطرقہ) سندانی سماعت کے ریشے جو    گھونگھے        (قوتوں) سے آواز کی لہروں کو اثر دماغ میں
پہنچاتے ہیں۔ گونگا (فوقعہ) اندرونی کان کا بیضوی ڈھول یا جھلی  جس سے باہر رکابیہ ہڈی چپکی  ہوئی ہے۔
کان درد
 تعریف: اس مرض میں کان کے اندر درد ہوتا ہے۔
وجوہات: سردی لگنا، پھنسی ہونا،عصبی درد، خرابی دانت، کان میں پانی پڑ جانا  اور  وجع المفاصل وغیرہ 
سے کان کا درد ہوتا ۔
تشخیص: درد کی ٹیسیں کان سے چہرے اور پیشانی تک ہوتی ہیں مریض بے چینی کی  حالت میں 
ہوتا ہے۔
علاج: جس  سبب سے درد ہو اس سبب کو معلوم کر کے رفع کریں۔ عام طور پر درد عصبی ہوتا ہے۔
اس لئے دافع درد ادویات سے فائدہ ہوتا ہے.
کان میں میل پڑ جانا      
تعریف : اس مرض میں کان میں   میل جمع ہوتا ہے،
وجوہات: گردو غبار مٹی اور کان میں  بے فائدہ تیل وغیرہ ڈالتے رہنا۔
تشخیص: مریض کو  بہرہ پن یعنی سنائی کم دینے لگتا ہے ائیر سکوپ سے میل  نظرآجاتی ہے۔
علاج: کان  میں    تیل یا گلیسرین نیم گرم ڈالیں  جب میل نرم ہو جائے تو نیم گرم پانی سے کان 
میں پچکاری کریں۔     
                دوتین بار پچکاری کرنے سے میل خارج ہو جاتی ہے اگر میل سخت ہو     اور خارج نہ ہو
تو روزانہ گلیسرین نیم گرم پانی میں ڈال کر پچکاری کریں۔ میل خارج    ہو جائے گی اور کان صاف ہو 
جائے گا اگر میل سخت نہ ہو تو ہا ئیڈروجن پر اوکسائیڈ ڈالنے سےہی ابل کر میل نکل جاتی ہے۔کئی 
آدمی بعض دفعہ کان بھاری ہونے سے کان میں دیا سلائی،سرمچویا کسی اور باریک لکڑی سے کان صاف
کرنے لگتے ہیں جس  سے کان صاف ہونے کی بجائے بعض دفعہ خراش ہو کر سخت تکلیف ہو جاتی ہے
اور بعض اوقات بے احتیاطی سے    کان کا پردہ  پھٹ جاتا ہے۔ اس   لیے   کان صاف کرنے میں  احتیاط
ضر وری ہے  نیز کان کو پچکاری سے صاف کرنے میں سختی نہیں کرنی چاہیے نہایت ہی آہستگی سے پچکاری
لگانی چاہیے اور  پچکاری سیدھی سوراخ میں نہ لگائیں کان کی دیوار میں لگائیں۔
کان میں          کچھ پڑ جانا
تعریف: اس مرض میں کان کے اندر کوئی غیر جنس داخل ہو جاتی ہے۔
اسباب: کان میں کیڑا مکوڑا،گندم، چنے، مٹر، مکی کا دانہ یا  کنکر اورپنسل کا ٹکڑاچلا جاتا ہے۔
علامات:  کان میں غیر جنس کے داخل ہونے سے سر سراہٹ اور سننا بند ہو جاتا ہے۔
علاج: کان کو ائیر سکوپ سے غور کے ساتھ دیکھیں اگر غیر جنس کان کے   سوراخ کے قریب ہی
دکھائی دیتی ہے تو باریک  فارسپس یعنی   موچنے یا سلائی وغیرہ سے احتیاط کے ساتھ نکالیں اگر غیر جنس
سوراخ سے دور ہو تو کان میں پانی کی پچکاری کرنے سے وہ چیز نکل جائے گی اگر   پھر بھی نہ نکلے تو
پچکاری سے نکالیں اگر کان میں پانی پڑ جائے تو خالی پچکاری سے کھینچ لیا جاتا ہے۔
کان سے پانی نکالنے کا آسان طریقہ
مونج یا کانے کی نالی لے کر اس کے اس سرے پر روئی لپیٹ لیں اور روئی کو تیل سرسوں میں
تر کر کے دیا  سلائی سے آگ لگا دیں۔دوسرا سرا  کان میں لگا کر ہاتھ  سے پکڑ رکھیں۔ دھوئیں کے زور
سے کان کے اندر کا پانی  باہر نکلنا شروع اوع آتشک وغیرہ امراض سے بھی یہ مرض ہو جاتا ہے۔
علاج: مرض کے اصل  سبب کو معلوم کر کے رفع کرنے کی کوشش کریں۔ عام طور پر کان میں میل
بھر جانے سے یہ مرض ہو جاتا ہے اس لئے ائیر سکوپ سے  دیکھ کر پچکاری کے ذریعے   میل کو خارج کریں
اگر کان کا پردہ پھٹ چکا ہو تو اکثر یہ  مرض  لا علاج ہوتا ہے یا مصنوعی پردہ لگ جانے سے قدرے فائدہ
ہو سکتا ہے ہر  ایک سبب کے مطابق علاج کریں۔
اگر دماغی  کمزوری ہو تو  دماغ کو طاقت دینے والی ادویات اور غذائیں استعمال کریں۔ حریرہ مقوی
دماغ نہایت مفید ہے۔  اگر  اونچا بولنے اور  تیز سخت آواز کی وجہ سے بہرہ پن ہو تو  آرنیکا200 کی ہر
تیسرے دن کی  ایک خوراک بے حد مفید ہے  اکثر دو تین خوراکیں کافی ہوتی ہے۔
دوائے بہراپن: بادام  روغن 6 تولہ روغن تارپین 1 تولہ  باہم ملا لیں۔ نیم گرم قطرہ قطرہ  کان میں
ڈالیں۔ ثقل سماعت اور بہرہ پن کے لئے مفید ہے اور درد آنکھ کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔

گوشت ۔ مچھلی ۔دودھ

حیوانی غذائیں
----------
اشیاء خوردنی کے دو ذرائع ہیں
1-حیوانات 2-نباتات

حیوانات
...........
یہ حیوانی ذرائع سے حاصل ہوتی ہے ۔وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
گوشت، انڈے،دودھ،مرغی،مچھلی  ،مکھن،دودھ،دہی،پینر ،نیچے ان کی تفصیل مندرجہ
ذیل  ہیں۔

گوشت
............
اس میں لمحیات چربی نمکیات اور پانی ہوتا ہے۔ اس میں نائٹروجن اجزاء کی زیادتی کی وجہ سے
سے غذائیت زیادہ ہوتی ہے۔خراب اور باسی گوشت کھانے سے اکثر شدید اور مہلک امراض پیدا
ہوتے ہیں۔گرمیوں میں  زیادہ باسی گوشت کھانے سےقے اور دست آنے لگتا ہے۔ اس طرح 
ملول (جانور کو TB ہو مثلاً گائے کو)جانور کا گوشت  کھانے سے سل ودق ہو جاتی ہے۔نیم پختہ
گوشت کھانے سے کئی امراض پید اہو جاتے ہیں۔بعض اوقات پیٹ میں کیڑے ہو جاتے ہیں۔
گائے،بھینس کے گوشت کی نسبت،بھیڑ، بکری،دنبہ اور ان کی نسبت بٹیر،تیتر،مرغ وغیرہ کا گوشت
لطیف اور زور ہضم ہوتا ہے۔

مچھلی
............
مچھلی کا گوشت بکرے کے گوشت کی نسبت زور ہضم ہوتا ہے۔ اس میں پانے والے اجزاء
بھی زیادہ ہو تے ہیں۔اور حیاتین بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔مچھلی ہمیشہ تازہ اور دریا ندی کی
کھانی چاہیے۔جوہڑ،تالاب کی مچھلی نہیں کھانی چاہیے۔مچھلی کے کھانے کے بعد پانی پینا اچھا
نہیں۔مچھلی موسم گرما میں بہت جلد سڑتی ہے۔

انڈا
................
اس میں ضخامت کم اور غذائیت زیادہ ہوتی ہے۔اس کے  دو حصے ہوتے ہیں ایک سفیدی اوردوسرا
زردی۔انڈے کی سفیدی کو البیومن (بیضن ) کہتے ہیں۔  زردی میں زیادہ تر دینبت کچھ
فاسفورس اور کچھ لوہے کا حصہ ہو تا  ہے۔اس لیے انڈے کی سفیدی کی نسبت اس کی زردی  میں
غذائیت پائی جاتی ہے۔اس لیے انڈے کی زردی کو فقرالدم (انیمیا) کے مریضوں کے لیے
بہترین    خیال کیا  جاتا ہے۔انڈے میں دودھ کے علاوہ باقی سب  اشیاء سے کیلیشم  زیادہ ہوتا ہے۔
کچا اور نیم پرست   انڈا دیڑھ گھنٹے میں جبکہ ابلا ہوا انڈا یا پکا ہوا انڈا سوا تین گھنٹوں میں ہضم ہو تا 
ہے۔

انڈوں کی شناخت
...................
 باسی انڈوں کی نسبت تازے انڈے ہمیشہ  بھاری ہوتے ہیں جب کہ کچھ دن انڈے
پڑے رہیں۔ تو ان کے چھلکے سےپانی کا کچھ حصہ خشک ہو جاتا ہے۔ اس لیے وہ ہلکے ہو جاتے ہیں۔
پاؤ بھر پانی میں دو تولہ نمک ملا کر اس میں انڈا ڈال کر دیکھیں۔اگر اس پانی میں انڈہ ڈوب جائے تو
ٹھیک ہے ورنہ خراب

دودھ
................................
1-ایک مکمل غذا ہے۔ کیو نکہ اس میں  وہ تمام اجزاء موجود ہے۔ جن سے انسانی نشوونما
ہوتی ہے۔
2-بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلانے کا  قرآن میں حکم ہے،کسی وجہ سے اگر یہ ممکن نہ ہو تو
گدھی، گائے یا بکری کا دودھ بھی پلایا جا سکتا  ہے۔
3- نوجوان روزانہ چار کلو دودھ پی کر پوری غذائیت حاصل کر سکتا ہے
4- کمزوروں اور مریضوں کے واسطے مفید اور بہتر غذا ہے۔
5-دودھ پینے سے قبل یا بعد  کٹھی چیز نہ کھائیں
6- معدہ میں ترشی کی صورت میں دودھ میں لائم واٹر (سوڈا واٹر)ملا کر پینا چاہیے۔
7- تازہ دودھ جوش دئیے ہوئے دودھ سے بہتر ہے۔اس لیے تازہ دودھ پیا جائے۔بچوں کا
پستانوں سے دودھ پینا کھلی شہادت ہے۔
8- دودھ دینے والا جا نور   تندرست ہو دودھ دوہنے کے  فوراً پی لینا چاہیے۔
9- بازار کا دودھ بڑے مراحل طے کرتا ہےاور دودھ  لانے  والے اور بیچنے والے صفائی کے
اصول سے واقف نہیں ہوتے یا لاپرواہ ہوتے ہیں۔ بازار سے لایا ہو ا دودھ کو معمولی جوش
دینا چاہیے کیو نکہ گائے کو مرض سل زیادہ ہوتا ہے۔ مسلول گائے کا  کچا دودھ پینے یہ مرض
بڑی جلدی سرایت کرتا ہے۔
10-دودھ گھونٹ کر کے پینا چاہیے۔ تاکہ کافی مقدار میں لعاب دہن اس میں شامل ہو ۔

غذا ۔ کھانے کے آداب

مخلوط غذا
------------

مخلوط غذا کیا ہے
.................
انسانی زندگی اور جسم کو قائم رکھنے کی لیے مختلف اقسام کی غذائیں  استعمال کرنی پڑتی ہیں۔
مثلاً حیوانی اور نباتاتی جو انسانی جسم کی نشونما کرتی  ہیں  اور انسان کے جسم میں جا کر کیمیائی مادوں
میں تبدیل ہو کر جسم  کے    ہر حصہ کو توانائی دیتے ہیں۔ان غذاؤں کو مخلوط غذا کہتے ہیں۔

مخلوط  غذا کے مرکبات 
.....................
گوشت،سبزی،اناج ،دودھ،انڈے مختلف قسم کی سبزیاں، کاڈ مچھلی کا تیل اور حیاتیں وغیرہ
(یعنی نباتاتی غذا حیوانی غذا)

مخلوط غذا کی کمی کےمنفی اثرات
.............................
مخلوط غذا کے اجزاء میں کسی جز کی کمی  کا لازمی نتیجہ انحطاط اور بدن کو نشوونما اور تغذیہ کا ناقص
ہونا ہے۔نائٹروجن اجزاء زیادہ  نہ استعمال  کریں گردے او ر جگر کو نقصان دیتے ہیں۔گوشت کا زیادہ

استعمال دماغ کو کند اور مزاج  کو  تند اور تیز بنا تا ہے۔
مخلوط غذا کے مثبت اثرات
.............................
 دماغی کام کرنے سے جسم تو زیادہ تحلیل نہیں ہوتا۔البتہ عصبی قوت ضرور صرف ہو تی ہے اس
 کے نتیجہ میں ہاضمہ بھی ضعیف ہو جا تا ہے۔،دماغی کام کرنے والوں کو کو نائٹروجنی اجزاء زود ہضم ہیں۔
ہماتے اعصاب میں بھی        زیادہ تر      نائٹروجن                                مرکبات     سے بنے ہوئے ہیں۔
بچپن اور لڑکپن میں نائٹروجنی اجزاء کی جوانی  اور بڑھاپے کی نسبت زیادہ ہو تی ہے۔گوشت
کا استعمال مناسب حد تک صحت کے لیے ضر وری ہے۔
ھانا پکانا
------------

کھانا پکا نا کےفوائد
..................
1-غذا کو پکانے سے وہ زود ہضم ہو جا تی ہے۔اس میں ریشے اور دوسری سخت اشیاء ملائم ہو جاتی
ہیں اور  زیادہ چبانا نہیں پڑتا۔اور دانت کو نقصان نہیں ہوتا۔
2-ہضم کرنے والی رطوبات اپنا فعل بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ خوش ذائقہ اور خوش نما ہو جا تی 
ہے۔
3۔امراض کے جرا ثیم ہلاک ہو جاتے ہیں۔
بعض اشیاء کوپکا نے سے  ان کےتغذیہ بخشنے والے مفید  اور کارآمد اجزاء ضائع ہو جاتے 
ہیں مثلاً۔دودھ میں جو خمیر ہو تے ہیں جو اس کے اجزائے الحمیہ کو قابل ہضم بناتے ہیں۔اگر دودھ
زیادہ جوش دے کر  پکایا جائے تو وہ ضائع  ہیں۔دودھ توذائقہ کے لحاظ سے ٹھیک ہے۔لیکن دودھ
پینے کا صحیح مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
    کھانا پکانے کے چار طریقے موجود ہیں۔
1۔ ابالنے سے  2                     2-تلنے سے                                     3۔بھوننے سے 4۔بھاپ دینے سے

ابالنے سے
.............
 ابلی ہوئی غذا میں اس قدر لذت نہیں ہوتی ہے۔جتنی کہ  پکی ہوئی غذا میں  ہوتی ہے۔ ا بالی ہوئی
غذا زود ہضم ہوتی ہے۔ اور وٹامنز سے بھر پور ہوتی ہے۔

ابالنے کا طریقہ
.............
(1) برتن میں پانی لے کر اس کو خوب جوش دیں جب پانی کھولنے لگے تو گوشت کو اس
 خوب   کھولتے ہوئے    پانی میں ڈال دیں۔تاکہ مقوی رطوبات خارج نہ ہونےپائیں۔
(2)آلو کو چھلکے         سمیت کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دینا چاہیے۔ ورنہ   اس کا عرق اور نمکیات
وغیرہ پانی میں نکل کر ضائع ہو جاتے ہیں۔
(3) یخنی یا شوربہ لگانا ہو تو گوشت کے چھوٹے چھو ٹے ٹکڑے ٹھنڈے پانی  میں ڈال کر
اس کو آہستہ آہستہ گرم کرنا چاہیے اس طریقہ سے گوشت کی مقوی رطو بتیں پانی میں آ جاتی ہے۔
اورضائع نہیں ہوتیں۔
(4)ابلا ہوا گوشت بھنا ہوا گوشت سے زیادہ لذیذ نہیں ہوتا ۔مگر زود ہضم ضرور ہو تا ہے۔
(5) تلنے کا مقصد ہے کہ چربی یا روغن میں گوشت               یا کسی اور چیز کا تلنا۔اس طریقے سے بھی
وٹامنز ضائع ہو جاتے ہیں اور غذا کا صحیح مفہوم  مفقود ہو جاتا ہے۔جڑوں والی  اور ہرے پتوں  کی
سبزیاں احتیاط سے اچھی طرح دھو کر پکانی چاہیے۔ سبزیاں یا پھل کافی دیر تک پانی بھگو کر نہ
رکھیں۔
پریشر ککر (PRESSURE COOKER)میں کھا نا پکا نے کے چند  فائدے ہیں۔
1- پریشر ککر پر کھانا 212F
 پر  بھاپ  میں پکتا ہے۔
2-پریشر ککر میں کھانا پکانے میں پانی اور وقت بہت کم لگتا  ہے۔ باہر سے آکسیجن شامل نہیں 
ہو سکتی۔جس  کی وجہ سے غذا کے ضروری  اور اہم اجزاء اور اسکی خوشبو بحال رہتی ہے۔
تکسیدی  عمل کی کمی کی وجہ سے وٹامن سی گرمی کی وجہ سے ضائع ہو جانے کے زیادہ امکانات
ہیں۔پریشر ککر  میں  زیادہ دیر تک غذا نہ رہنے دیں۔

کھانے  کے آداب وہدایات
----------------

کھانے کے آداب
..................
کھانا کھانے سے قبل صابن  سے ہاتھ دھونے چاہیے۔کیونکہ منہ صحت ومرض کےلیے 
ایک دروازہ ہے۔ اور عمل انہضام کی راہ میں یہ پہلی منزل ہے۔ زمین پر بیٹھ کر دسترخوان پر کھانا سنت
رسول ہے کھانا آہستہ آہستہ خاموشی اور اطمینان سے کھانا چاہیے۔تاکہ غذا کے ساتھ لعاب دہن
خوب اچھی طرح شامل ہو جائے۔اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ نشاستہ دار غذا شکر میں تبدیل ہو
جائے گی اور بہت آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے۔

دوران طعام خاموشی
..................
کھانے کے دوران کسی قدر خاموشی زیادہ بہتر ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے زور زور سے
باتیں کرنے سے کھانے کی  طرف توجہ ہٹ جاتی ہے۔جس کی وجہ سے غذا زیادہ مقدار میں اور جلدی
کھائی جاتی ہے۔دوران طعام اخبا ر بینی نہیں کرنی چاہیے۔اس سے ذہن دوسری طرف منتقل ہو 
جاتا ہے۔اور آلات انہضام فعل درست طور  پر نہیں بجا لاتے ہیں۔ کھانے کے دوران میں بالکل
سکون کی بھی ضرورت نہیں۔دلچسپ اور خوش کن گفتگو کھانے کے دوران میں مفید ہے۔ تاکہ کھانا
آہستہ آہستہ کھا یا جا سکے۔

کھانے کے برتن
..................
کھانے کے برتن اچھی طرح دھونے چاہیے اور صاف ستھرے ہونے چاہئیں کھانے کے
برتن اچھی طرح ڈھانپ دینا چاہیے۔

اطمینان
...........
کھانا کھاتے وقت کسی قسم کی ذہنی پریشانی یا انتشار نہیں ہو ناچاہیے۔ پریشانی اور تفکرات کی
وجہ سے بھوک نہیں لگتی ہے۔

بھوک
.........
 اگر بھوک ہو تو کھانا کھانا چاہیے۔ورنہ کھانابالکل نہیں کھانا  چاہیے۔

ضرورت کے مطابق
....................
جتنی ضرورت  ہواس قدر  کھانا علیٰحدہ رکابی یا  کسی برتن  میں ڈا ل کر کھانا چاہیے۔ نہ زیادہ کھایا
جائے نہ کم۔اگر زیادہ کھانا مضرصحت ہے مگر بہت کم کھانا بھی توصحت کی خرابی اور بیماریوں کو دعوت
دیتا ہے۔کھانے کے بعد  ہاتھ دھونے چاہیے۔اور  روزانہ مسواک کرنی چاہیے تاکہ دانتوں میں غذا کے
جو زرے رہ  گئے ہوں وہ صاف ہو جائیں   ۔صاف نہ  کرنے  کی صورت میں وہ دانتوں  میں گل سڑ کر
کر دانتوں کی بیماریاں پیدا کر دیتے ہیں۔
بعد از طعام
..............
کھانا کھانے کے بعد فوراً سونا نہیں چاہیے۔ وگرنہ بدہضمی اور ضعف معدہ کی بیماری ہو جاتی
ہے۔۔کھانا کھانے کے تھوڑی دیر بعدغسل جماع اور مشقت کا کام نہیں کرنا چاہیے۔

مریض کے احکام غذا

مریض کے احکام غذا
------------
غذا کے بارےمیں مندرجہ ذیل ہدایات پرعمل کرنا چاہیے۔

1۔غذا ملی جلی ہونی چاہیے
.......................
صرف ایک    اکیلی چیز کھا کر ہمارے جسم کی تمام ضروریات پوری نہیں ہو  سکتیں۔اس لیے
ہمیں بہت سی چیزیں ملا کر کھانا پڑتی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ  دودھ ایک مکمل غذا ہے۔مگر
یہ خیال بھی کسی قدر صحیح نہیں کیونکہ دودھ میں فولاد نہیں ہوتا۔اس طرح کچے گوشت کے متعلق بعض‎
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مکمل غذا ہیں۔مگر اول تو کچا گوشت کھانا کس قدر مشکل ہے دوسرے گوشت
میں کیلیشم یعنی چونا نہیں ہوتا۔
ڈبل روٹی میں کاربوہائیڈ  ریٹ تو ہوتے ہیں۔مگر چکنائی معدنی نمک اور حیاتیں نہیں 
ہوتے اس کے برعکس مکھن کاربوہائیڈ  ریٹ  اور پروٹین نہیں ہوتے۔اس لیے ہمیں اپنی تمام تر
ضروریات یعنی اچھے قسم کے پروٹین،مقررہ حرارے معدنی نمکیات اور حیاتین حاصل کرنے کے
لیے ایک سے زیادہ چیزوں کو ملا کر کھانا پڑتا ہے۔

2۔روزانہ ہی ایک قسم کی غذا
...........................
ہر روز ایک ہی قسم کی غذا کھانے سے طبیعت اکتا جاتی ہے۔اور اس میں وہ ذائقہ  اور لذت
بھی ہو۔کچھ مزہ نہیں دیتی اور جو خوراک مزیدار لگتی ہو آسانی سے ہضم نہیں ہوتی۔

3۔غذا صاف اور اچھی ہو
...........................
ہمیں چاہیے کہ ہم غذا میں استعمال ہونے والی اشیاء تازی اور صاف ستھری خریدیں۔گلی
سڑی اور باسی اشیاء استعمال نہ  کریں۔مزید ان کو ڈھانپ کر رکھیں۔بازاروں میں بکنے والی  اشیاء
عام طور پر کھلی اور ننگی پڑی رہتی  ہیں۔جن پر گردو غبار اور مکھیوں کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ان کو استعمال کرنے
سے ہیضہ بدہضمی اور دستوں کی بیماریاں ہو جاتی ہے۔

4-غذا میں پروٹین وغیرہ ہونے چاہیے
.....................................
غذا میں اعلیٰ قسم کے پروٹین حرارے معدنی نمکیات اور حیاتین اس مقدار میں مل سکیں جن
سے ہمارے بدن/جسم کی ان کو  ضروریات ہے

5۔غذا مزیدار ہونی چاہیے
................................
غذا کی موجودگی میں اگر اشتہا پیدا ہوتی ہو تو اس کی وجہ سے معدہ میں غذا کو ہضم کرنے
والے عروق زیادہ مقدار میں  رہنے لگتے ہیں۔

6۔زدوہضم غذا
...................
غذا    زدو  ہضم  سے مراد یہ نہیں ہے کہ خوراک قدر جلد معدے سے گزر کر چھوٹی آنت میں پہنچ
جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غذا آلات انہضام  میں کتنے عرصہ میں تحلیل ہو کر جذب ہوتی 
ہے اور جزو بدن بنتی ہے۔

7۔موسمی اثرات
...................
سرد ملک کے لوگ گرم  ملک کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ غذا کھاتے ہیں۔کیونکہ انہیں
اپنے جسم کے درجہ حرارت کو برقرار  رکھنے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی غذا میں چربی
اور روغنیات شامل ہوتے ہیں۔ مگر گرم ملک  کےلوگ گرمیوں میں غذا کم استعمال کرتے ہیں۔اور
مشروبات زیادہ اور سردیوں میں غذا گرمیوں کی نسبت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔

8۔وقفہ طعام
.....................
کھا نا کھانے کے اوقات مقر ہونے چاہیے اور ان کا درمیانی وقفہ کم سے کم پانچ گھنٹہ ہونا
چاہیے شیر خوار اور چھوٹے بچوں میں یہ  وقفہ کم ہونا چاہیے۔کیونکہ دودھ جلد ہضم ہو جاتا ہے۔اور
چھوٹے بچے  بڑوں کی نسبت کم کھانا کھاتے ہیں۔

9۔طریق طعام
.......................
کھانا آہستہ آہستہ  اور اچھی طرح چبا کر خاموشی اور اطمینان سے کھانا چاہیے۔ذہن میں 
کسی قسم کا دباؤنہ ہو۔

10۔شکم سیری
...................
پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھانا نہیں چاہیے۔بلکہ کم کھانا چاہیے۔
حضور پاکؐ کا فرمان ہے کہ آدھی بھوک رکھ کر کھا نا کھانا چاہیے۔جن میں کھانا کھا نے 
کے بعد تبخیری کیفیت پیداہو جائے۔وہ دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی بجائے۔ دن میں تھوڑا تھوڑا 
تین یا چار مرتبہ کھانا کھائیں۔

11۔ہاتھوں کا دھونا
.........................
حضور پاکؐ کا فرمان ہے کہ کھانا کھانےسے پہلے ہاتھوں کو دھو لینا چاہیے۔ کیونکہ ہاتھوں
کے ساتھ جراثیم چمٹ جاتے ہیں۔اور  کھانا کھاتے  وقت وہ پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔اور
بیماریاں  پیدا کرتے ہیں۔ کھانے کے بعد پھر ہاتھوں کو دھو لینا چاہیے۔اور دانتوں میں مسواک
کریں تاکہ دانتوں میں جو کھانے کے ذرات پھنس گئے ہیں۔وہ نکل جائیں وگرنہ وہ گل سڑ کر
دانتوں کی بیماریاں پیدا نہ کر دیں۔

12۔کھانے کے بعد آرام
............................
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑا سا آرام کر لینا چاہیے۔لیکن رات کا کھانا کھانے کے بعد
تھوڑی سی چہل قدمی کر لینی چاہیے۔ہمارے ہاں رواج  یہ ہے کہ رات کو کھانا کھانے کے بعد 
فوراََ بعد بستر دراز ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے اکثریت  بد ہضمی کی شکایت کرتی ہیں۔ان کوچاہیے
کہ و ہ تھوڑی سی چہل قدمی کر   لیا کریں۔

13۔ کھانے کے بعد ذہنی و جسمانی مشقت
............................................
کھانا کھانے کے بعد ذہنی و جسمانی مشقت گریز کرنا چاہیے۔کیونکہ جب معدہ
میں غذا ہو تو طبیعت غذا کے ہضم کر نے کی طرف متوجہ کرتی ہے اور زیادہ خون معدہ کی طرف جاتا ہے۔
تاکہ رطوبت ہاضم زیادہ تراوش پائے اگر ایسے وقت میں کوئی جسمانی یا ذہنی محنت کی جائے تو 
طبیعت اور خون کا میلان دوسری طرف ہو جاتا ہے۔اور معدہ کی طرف کم خون آنے کی وجہ سے
رطوبت ہاضم کم متر شح ہوتی ہے۔اس طرح  غذا بخوبی ہضم نہیں ہوتی۔

14۔کھانا کھانے کے دوران
.................................
مشغول طعام کے وقت دھیان کاِادھراُدھر نہیں  دینا چاہیے۔

15۔ کھانا کھانے کے بعد
.................................
کھانا کھانے کے بعد غسل اور جماع کرنا بھی صحت کے لیے مضر ہے۔

16۔پھیکی،ترش،نمکین اور شیریں غذائیں
..............................................
پھیکی غذائیں استعمال کرنے سے رطوبت پیدا ہو کر بھوک کم لگتی  ہے
ترش غذائیں استعمال کرنے سے بڑھاپا جلدی عارض ہو جاتا ہے اور ترش غذاؤں کے
ذیادہ استعمال سے معدہ کمزور  ہوجاتا  ہے۔معدہ میں ترشی کی تحریک سے رطوبت ہاضم زیادہ پیدا ہوتی
ہے۔
نمکین غذائیں استعمال کرنے سے خشکی اور لاغری پیدا ہو جاتی ہے۔
شیریں  غذائیں استعمال کرنے سے معدہ اور بدن ڈھیلا ہو جاتا ہے

17۔مرکب غذاؤں کا استعمال
................................
طبیبوں نے نیچے دی ہوئی چند غذاؤں کو اکٹھا استعمال  کرنے سے منع کیا ہے۔
1۔ترشی کے ساتھ دودھ کا استعمال
2۔مچھلی کھانے کے بعد دودھ لینا،اس سے فالج،جزام اور برص کی مانند چند مضر امراض لاحق
ہو جاتے ہیں۔
3۔دودھ اور دہی کی لسی کوملا کر استعمال کرنا بھی خطرناک ہے۔
4۔جانوروں کے سری پائے کھانے کے بعد انگور نہیں کھانا چاہیے۔
5۔حلیم کھانے کے بعد انار نہیں کھانا چاہیے۔
6۔چاول کھانے کے بعد سرکہ نہ پینا چاہیے۔یہ صحت کے لیے خطرناک طریق ہے۔

غذا کے اقسام
--------------
عناصر کی ترکیب کے لحاظ سے اجزاء غذا    تین قسم کے ہوتے ہیں۔
   1۔نباتاتی                      
   2۔حیوانی
   3۔معدنی
لیکن تغذیہ جسم میں غذائیت پہنچانے کے مناسبت سے اس کی چھ قسمیں ہیں۔

غذا کے بنیادی اجزاء
.....................
اچھی اور متوازن غذا وہ ہے جو جسم کے ہر خلیے کو قائم و دائم رکھے اور طاقت بخشے،اچھی غذا میں
مندرجہ ذیل بنیادی غذائی مادے ہونے چاہئیں۔
    1۔پروٹینز (اجزائے لحمیہ)
    2۔کاربو ہائیڈ ریٹس(نشاستہ دار اجزاء) 
    3۔چکنائی
    4۔معدنی نمک
   5۔پانی
   6۔وٹامن
پروٹین کی بہترین مثال انڈے کی سفیدی ہے۔اس میں پانی اور پروٹین میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اگر جانوروں کی  ہڈیاں اور کھال کو پانی میں دیر تک جوش دیں تو جو لیسدار مادہ نکلتا
ہے۔وہ بھی خالص پروٹین ہے مگر یہ ضروری  نہیں ہے کہ بطور غذا بھی یہ بہترین پروٹین ہو۔دودھ
اور پینر میں بھی پروٹین موجود ہوتا ہے۔علاوہ ازیں گیہوں،آٹا،چاول مٹر اور دالوں میں بھی
پروٹین موجود ہوتاہے  ۔
پروٹین بلحاظ نوعیت دو طرح کے ہوتے ہیں۔

1۔حیوانی پروٹین
.......................
 جو گوشت ،مچھلی،انڈے اور دودھ سے حاصل ہوتے ہیں۔

2۔ نباتاتی پروٹین
.........................
جو گیہوں کے آٹے چاول اور دالوں سے حاصل ہوتے ہیں۔   حیوانی پروٹین ،نباتاتی پروٹین
کے مقابلہ میں زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔کیونکہ یہ ہاضمے کے دوران ہی جزو بدن ہو کر  جسم میں 
پروٹین کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔اس کے برعکس نباتاتی پروٹین  جسم میں حرارت اور قوت تو
پہنچا سکتے ہیں۔مگر جزو بدن نہیں بنتے کیونکہ ان میں ضروری امینو ایسڈ نہیں ہوتے ہیں۔مگر اس کے
باوجود جسم کو دونوں قسم کے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہماری غذا میں حیوانی اور نباتاتی
دونوں طرح کے پروٹین ہونے  چاہیے۔پروٹین میں کاربن اور ہائیڈروجن موجود ہوتے ہیں۔
اس  لیے یہ جسم میں ایندھن  کا کام بھی دیتے ہیں۔
پروٹین متوازن غذا کے لیے سب سے مقدم ہے۔ پروٹینی غذآ کے استعمال سے جسم کی
طاقت بحال رہتی  ہے۔گوشت،چوزہ،دل، گردے،دودھ ،دہی،انڈے،مونگ پھلی اور آلو وغیرہ ۔
میں پروٹین وافر مقدار میں ہوتےہیں۔
                                                                                                                                                      
3۔کاربوہائیڈریٹ(نشاستہ دار غذا)                     
.........................................
ان کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔
                                                          کاربن ،ہائیڈروجن،آکسیجن
ان میں دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن ہوتی ہے۔ اس لیے ان کو کاربو ہائیڈریٹ
کہتے ہیں۔ان میں تمام تر نشاستہ دار غذائیں اور شکر شامل ہیں۔نشاستہ اور شکر  زیادہ تر نباتاتی
ذرائع سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔     ََََََََمثلاََََََ                                    مختلف اناجوں اور جڑوں جیسے گیہوں،چنا ،مکئی ،جوار،                                                       
باجرہ،چاول،آلو،شکرقندی                    وغیرہ سے مگر ، دودھ میں جو ایک قسم کی شکر پائی ہے۔وہ تو صرف
حیوانی ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔کاربوہائیڈریٹس نسبتاََ جلد ہضم ہو جاتےہیں مگر اصول
حفظان کسی کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ ضرورت سے زیادہ کھایا جائے یا ضرورت سے زیادہ
 کھایا جائے۔ضرورت  سے زیادہ کھانے سے نظام ہاضمہ پر بوجھ پڑتا   ہے۔نظام ہاضمہ خراب
ہو جاتا ہے اور اسہال کی مرض لاحق ہو  جاتی                                                                                                                                                             ہے۔کم کھانے  کی صورت         میں جسمانی  کمزوری ہو
جاتی ہےانسان پر جلد بڑھاپا طاری  ہو جاتا ہے۔ایک عام تندرست جوان  کو چوبیس گھنٹے میں8 سے
10 چھٹا نک تک نشاستہ دار غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔کھانے کے معاملے میں اعتدال پسندی
بہتر ہے۔

چکنائی
............
یہ کاربن،ہائیڈروجن اور              آکسیجن کا مرکب ہے،یہ غذا  ایک ضروری حصہ ہے۔اور
ہمارے جسم میں  قوت اور  حرارت پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہ نباتاتی اور حیوانی
دونوں ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔مگر حیوانی چکنائی مثلاََََ گھی مکھن وغیرہ                          اور نباتاتی تیلوں کے
مقابلہ میں زیادہ بہتر  ہے کیونکہ اس میں حیاتین (الف) موجود  ہوتا ہے۔نباتاتی چکنائیوں
میں صرف سرخ کھجوریں کے تیل میں حیاتین (الف) موجود ہوتا ہے
نباتاتی چکنائیوں میں مار گرین روغن،زیتون،سرسوں کا تیل،مونگ پھل کا تیل،بناسپتی گھی
وغیرہ شامل ہے،غذا کی چکنائی پر لعاب دہن اور معدے کی رطوبتیں اثر نہیں کرتیں۔یہ معدے
سے چھوٹی آنت میں ویسی کی ویسی گزر جاتی ہے۔مگر یہاں پہنچ کر جگر صفرا  اور لبلبہ   کے
عروق چکنائی کو شیرے میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
اس شیرے میں چکنائی  چھوٹے چھوٹے ذرات پانی میں  تیرتے رہتے ہیں لبلبہ کے عروق پر
اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔دودھیا رنگ کے  اس شیرے  کو کیلوس کہتے ہیں۔چھوٹی
آنت کی اندرونی جلد میں کچھ کانٹے  کھڑے ہو جاتے ہیں۔جن کو ولائی کہتے ہیں۔
کیلوس ان ولائی کے زریعہ لیمپن میں شامل ہو کر بعد  میں خون کی بائیں جانب کی
رگوں میں  شامل ہو جاتا ہےاور اس طرح جگر تک نہیں پہنچتا۔چکنائی کا کچھ حصہ آنتوں فیٹی
ایسڈ گلیسرین بن کر بھی جذب ہو جاتا ہے۔
ہمارے ملک کے لوگوں کی غذا میں چکنائی کی کمی ہو جاتی ہے۔یہ کیونکہ چکنائی والی اشیاء
خریدنے کی ان میں  طاقت نہیں ہوتی ہر آدمی کو  ایک دن میں کم از کم 100 گرام چکنائی
ضرور استعمال کرنی چاہیے۔
چکنائی کا کام جسم میں صرف حرارت اور قوت پیدا کرنے کے علاوہ یہ جسم کےچربی دار
بافتوں کی مناسب مرمت کرتی ہے اور نئی بافتیں بھی بناتی ہے۔چکنائی
دوسری غذا کے ہضم ہونے اور جزو بدن بننےمیں بھی معاون رکھتی ہے۔جس سے کافی دیر تک
 بھوک محسوس نہیں ہوتی ہے۔اگر غذا میں کاربو ہائیڈریٹ ہوں تو  غذا معدے سے بہت جلد تحلیل ہو
جاتی ہے۔جس کی وجہ سے بار بار بھوک لگنے لگتی ہے۔جس کے نتیجے میں ہاضمے سے خرابی پیدا
ہو جاتی ہے۔

معدنی نمک
....................
ہمارے جسم میں بہت سے نمک پائے جاتے ہیں مثلاََََََ کھانے کانمک کیلشیم اور سوڈیم کے
فاسفیٹ اس کے علاوہ کچھ فولاد کا بھی۔معدنی اور دیگر نمکیات قیام صحت اور انسانی زندگی کے
لیے بہت ضروری ہیں۔ان کے بغیر زندگی اور حیات محال ہےنمکیات غذا ہضم ہونے  میں طبیب
 کا کام  دیتے ہیں،اس کی وجہ سے جسم میں                             پانی ذخیرہ جمع رہتاہے گہری نیند  آتی ہے  جسم کو کمزور
ہونے سے بچاتے ہیں۔یہ غدودوں کی ر طوبتوں  پر اثر انداز ہوتے ہیں۔نظام انہظام کے لیے
مفید ہیں خون کو  جسم میں             رواں دواں  رکھتے ہیں۔اس لیے ہماری غذ ا میں معد نی نمکیات کا ہونا 
بہت اشد ضروری ہے۔ یہ دانتوں اور ہڈیوں کو مضبوط  بناتے ہیں۔ نمکیات کی علیٰحدہ علیٰحدہ اقسام ہوتی   ہیں۔
اللہ تعالیٰ  نے  نمکیات کھانے کی اشیاء میں   رکھی ہے مثلاًسبزپتوں والی سبزیاں  اور انڈوں میں بھر دی ہیں۔ان
کو کھانے سے نمکیات کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اگر ہمارے جسم میں قطعی طور پر نمکیات نہ
ہوں تو ہم بیمار ہو جائیں یہاں تک کے ہم زندہ بھی نہ رہیں۔ذیل میں چند معدنی نمک اور ان کے
خواص دئیے گئے ہیں

کیلیشم
................
یہ نمک چھوٹے بچوں کی ہڈیاں بنانے میں کام آتے ہیں کیلیشم دودھ پینر سبزپتوں والی 
سبزیاں  اور انڈوں   میں بکثرت  پائے جاتے ہیں  یہ جسم کی ہڈیوں کو مضبوط اور توانا بناتےہیں۔دل
کی حرکت باقاعدگی کو درست کرتے  ہیں۔                                                                 تپ دق کی روک تھام  میں مفید  ثابت ہوتے ہیں۔
بڑوں کی نسبت بچوں کو کیلیشم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کو روزانہ تقریباً ایک گرام اور
بڑوں کو 68 گرام  کیلیشم کی  ضرورت ہوتی ہے۔چاول کھانے والوں کو کیلیشم کی مقدار پوری نہیں
ملتی لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ کیلیشم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دودھ استعمال کریں۔
میگنیشیم
............
جسمانی اعصاب اور شریانوں کو توانائی بخشتا ہے  اور مضبوط بناتا ہے ذیابیطس کی اصلاح کرتا
ہے۔یہ لیمو ں،انجیر،گوبھی ،آلوبخارا اور گندم پایا جاتاہے۔

کلورین کا نمک
....................
 جسم میں جو زائد چربی ہے اس کو کم کرتا ہے۔قبض کشا  ہے یہ پینر ،پالک،انڈے کی سفیدی،
بکری کا دودھ،سلاد،آلو بخارا، مولی،ٹماٹر اور مکھن میں بکثرت سے پایا جاتا ہے۔

کاربن
...............
جسمانی حرارت کو برقرار رکھنے میں اس کا کردار موزوں ہے۔پھلوں میں یہ انگور ،سیب  اور
کھجور اور سبزیوں میں مٹر اورآلو اور دالوں گوشت میں ہوتا ہیں۔

فولاد
............
چہرے کی خوبصورتی اور سرخی ،حرارت جسمانی،ہاتھ پاؤں کی طاقت اور مضبوطی اور عمدہ یا
یاداشت فولاد  کی موجودگی کی مرہون منت ہے۔خون کے سرخ ذرات جو آکسیجن کو  تمام جسم میں
پہنچاتے ہیں۔یہ فولاد سے  بنتے ہیں۔اگر ہمارے جسم میں کے فولاد کو اکٹھا کیا جائے تو اس مقدار سے
ایک ایک انچ کی دو میخیں تیار ہو سکتی ہیں۔

گندھک
..............
یہ جلد کے امراض کو روکتی ہے۔ انتڑیوں اور گنٹھیا میں مفید ہے۔بالوں کی جڑوں کو  جلا بخشتی
ہے۔ یہ زیادہ تر سیب ،بادام، لیموں،چقندر،تربوز،خشک انجیر اور ٹماٹر میں یہ معدنی نمک 
ہوتا ہے۔

فاسفورس
................
ہماری خوراک میں ایک گرام فاسفورس کی مقدار روزانہ ہونی چاہیے۔عام طور پر جس
خوراک میں کیلیشم ہوتا ہے۔اس میں فاسفورس بھی ہوتی ہے۔ ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتی 
ہے۔اعصاب اور دماغ کی کی تندرستی کو جلا بخشتی ہے اس کی کمی سے پائیوریا کا مرض ہو جاتا ہے۔
ہڈیوں میں مضبوطی   کی کمی ہو جاتی ہے۔یہ انڈے کی زردی،گوشت،مچھلی،مکھن،دودھ،زیتون،
مونگ پھلی،آلو بخارا                 اور مٹر میں پائی جاتی ہے۔حاملہ عورت کے لیے اس کی ضرورت بڑھ  جاتی 
ہے۔

آیوڈین
..............
یہ جسم کو موٹاپے سے محفوط رکھتی ہے۔ طاقت اور توانائی بحال رکھتی ہے۔ اور ذہنی پریشانیکا
بھی ازالہ کرتی ہے۔اس کی کمی سے گلہڑ موٹاپا اور ذہنی  پریشانی لاحق ہوجاتی ہے۔یہ زیادہ تر  مچھلی،
سلاد،گندم،گاجر،گوبھی ،اور ٹماٹر وغیرہ میں پائی جاتی ہے

پانی
..............
قدرت نے انسان کی ذندگی کا دارومدار  پانی پر رکھاہے۔جہاں پانی نہیں وہاں آکسیجن بھی
نہیں ہوتی ۔یہ دونوں یعنی آکسیجن اور پانی لازم وملزوم ہیں۔یہ انسان کی اندرونی اور بیرونی
ضروریا  ت  پوری کرتا ہے۔ہمارے جسم کا تقریباً 80 فیصد حصہ پانی ہے۔ اس لیے خوراک میں
پانی کا ہونا بہت ضروری ہے۔یہ ہاضمے میں مدد دیتا ہے۔اور ہضم شدہ خوراک کو تحلیل کرتا ہے۔
خوراک کا بیشتر حصہ صرف اسی صورت میں جزو بدن بنتا ہے۔جبکہ وہ رقیق حالات میں ہوں۔
اس کے علاوہ خون کو بھی رقیق رکھنے کے لیے پانی ضروری ہے۔زیادہ پانی پینے سے عرق ہاضم
کمزور ہو جاتا ہے۔اس لیے ہا ضمہ ضعیف ہو جاتا ہے۔
پیشاب وغیرہ کی صورت میں فضلات خارج کرنے کے لیے بھی پانی بہت زیادہ ضروری ہے۔
ایک آدمی کو  اوسطا 3/1/2/ پائنٹ   سے لےکر   5 پائنٹ تک روزانہ پانی  پینے کی ضرورت ہے۔
ایک پائنٹ   تقریباً دس چھٹانک کے برابر ہوتا ہے۔پسینہ  کے راستے ،پیشاب کےراستے اور سانس 
کےراستے سے جسم میں بہت سا پانی خارج ہو  جاتا ہے۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں  پانی
پینے کی ضرورت   ہوتی ہے۔زیادہ سرد پانی سے    بھی حرارت معدہ ضعیف ہو جاتی ہے۔نہارمنہ
 پانی پینا صحت  کے لیے مضر ہے۔

وٹامنز (حیاتین)
..................
وٹامنز غذا  میں موجود ان اجزاء کا نام ہے جو کہ انسان کی حیات و بقا کو قائم و دائم رکھ سکے۔
اگر ہم اپنی غذا کو متوازن رکھیں۔ تو وٹامنز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔بلکہ یوں کہنا چاہیے ہوتی ہی نہیں
ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متوازن غذا کا معیار کیا ہے؟ طبی نقطہ نگاہ سے متوازن غذا وہ ہے
جس میں پروٹین،کاربوہائیڈریٹ اور چکنائی مناسب مقدار میں  اور صحیح تناسب میں موجود ہوں۔
بعض اوقات ایسی بیماریاں ہیں جو کہ مناسب  غذا کے باوجود بھی جسم میں وٹامنز کی کمی کرنے کا
باعث بنتی ہے۔ ایسی بیماریوں میں وہ  بیماری  بھی شامل ہیں جو کہ انتڑیوں کے نظام انجذاب کو درہم 
برہم کر کے رکھ دیتی ہے۔مثلاً مال اپزاریشن سنڈ روم ،سپرو وغیرہ ان کے علاوہ کئی بار جسم میں
موروثی طور پر ایسے نقائص ہوتے ہیں۔جو کہ کسی خا                   ص                                                                                                                                                                                                                    وٹامنز کی مستقل  کمی کا  باعث  بن جاتے  ہیں۔
او یہ بیماری خاندان     کے    کے دیگر افراد       میں بھی مو جود ہوتی ہے۔ مثلاً پرنش  انیمیا      جو کہ     وٹامن
 B12  کی کمی سے ہوتا ہے ۔
وٹامن کا نام سب سے پہلے           مشہور ماہر غذا  فنک نے 1912ء میں استعمال کیا تھا۔شروع
شروع میں وٹامنز  کے متعلق صرف اس قدر ہی معلوم ہو سکا تھا۔ کہ ان اجزاء کی  غذا میں عدم
موجو دگی صحت اور نشوونما پر بڑا اثر ڈالتی ہے۔ حال ہی میں سائنسدان ان حیاتین کو مختلف غذاؤں
سے خالص صورت میں علیٰحدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں دودھ،انڈا، حیوانات کے جگر،
سبز ترکاریوں اور تازہ پھل ایسی چیزیں ہیں۔جن میں وٹامنز بکثرت پائے جاتے ہیں۔ہمارے
ہاں سبز ترکاریوں کو خوب پکایا جاتا ہے۔اس طرح وٹامنز ضائع ہو جاتے ہیں بہتر ہے کہ ہم اپنی
غذاؤں میں کچھ پکائے بغیر پکی ہوئی چیزیں بھی رکھیں۔یاد رکھیں کہ وٹامنز کی  مقدار بھی  تندرستی کو
قائم رکھنے کے لیے کافی ہے۔
وٹامنز  علیٰحدہ صورت میں بازار سے بآسانی مل سکتے ہیں۔مگر بہتر ہے کہ غذاؤں سے ہی
وٹامنز حاصل کیے جاتے ہیں۔

وٹامنز کی اقسام
..................
       روغنیات میں حل  پزیر وٹامنز درج زیل ہیں
1۔ ٹامن اے،وٹامن ڈی،وٹامن ای،         وٹامن کے
2۔ پانی میں حل پزیر
وٹامن بی کی  مختلف اقسام مثلاً تھایامین (بی)رائیبو فلیوین (ب2)  انکو ٹینک،ایسڈ اور
وٹامن بی کے دوسرے وٹامنز اور وٹامن سی اور وٹامن پی
 دوسرے وٹامنز، فولک ایسڈ، وٹامن B12 
اب ان میں سے ہر ایک کا حال کسی قدر تفصیل      سے بیان کیا جاتا ہے۔روغنیات میں حل ہو
جاتے ہیں۔                                                    
وٹامن اے
..................
یہ جو کیر وٹین             کی شکل میں سبزیوں میں قدرتی طور پر ہوتا ہے۔ یہ سبزیاں حیوانات کی غذا
 ہے جب  حیوانات یہ سبزیاں                    کھاتے ہیں۔ تو ان کے جسموں کے اندر جا کر   وٹامن اے میں تبدیل
ہوجا تا ہے۔ اس سے  یہ بات عیاں ہوئی کہ حیوانات جو سبزیوں اور سبز  پتوں کو کھاتے ہیں۔یہ
وٹامن سبزیوں  اور سبز پتوں کی وجہ سے ان میں موجو د ہوتا ہے۔اس لیے حیوانات جو سبزیاں اور سبز
پتے کھاتے ہیں ان کی چربی میں یہ وٹامن پایا جاتا  ہے۔کاڈ مچھلی کے جگر کے تیل میں یہ سب سے زیادہ
ہوتا ہے۔اس لیے انسانی جسم کی نشونما کے لیے ضروری ہے کہ یہ وٹامن اس کے جسم میں موجود
 ہوں۔یہ سبزیوں مثلاً پالک،گوبھی،شلغم ،مولی،چقندر،پھلوں میں،دودھ۔مکھن، گردہ،جگر میں
موجود  ہوتا ہے۔یہ وٹامن حرارت سے بہت کم متاثر ہوتا ہے۔ اس کی موجودگی انسانی جسم میں
قوت  مدافعت پیدا کرتی ہےجس سے متعدی بیماریو ں سے انسان محفوظ ہو جاتا ہے۔وٹامن اے
کم ہونے کی صورت میں اختلاج قلب،تنگی نفس،روز کوری،شب کوری ،حفقان بصر شدید کے
امراض  جاتے ہیں۔
انسانی جسم میں وٹامن اے اگر کم ہو بصارت میں کمزوری کے علاوہ صعف عامہ کا عارضہ
لاحق ہو جاتا ہے۔اور متعدی بیماریوں کو قبول کرنے کی قوت بڑھ جاتی ہے۔اس کا دوسر ا  نام اینٹی
انفیکٹو وٹامن ہے۔یہ بازار میں مل جاتا ہےاس کا نام پری پین ہے۔

وٹامن ڈی
.............
یہ وٹامن حیوانی روغنیات میں کاڈ مچھلی  کے جگر کا تیل،انڈے کی زردی،دودھ،مکھن اور پینر
میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ان حیاتین               کا سب سے بڑا مقصد  جسم میں چونے اور فاسفورس کو 
جزو بدن بناتا ہے۔غذا میں وٹامن کے نہ ہونے کی صورت میں بہت سے عارضے پیدا ہو 
جاتے ہیں۔مثلاً ہڈیوں کا ٹیڑھا پن ،دانتوں کے امراض، عورتوں کو حمل اور دودھ پلانے کےزمانہ
میں ان حیاتین کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں اور بڑوں میں جو بیماریاں کمی وٹامن ڈی
سے پیدا ہوتی ہے۔وٹامن ڈی استعمال کرنے سے وہ دور ہو جاتی ہے۔                                                                       

وٹامن اے اور وٹامن ڈی میں فرق
.....................................
کارڈ مچھلی کے تیل کو گرم کرنے سے وٹامن   اے ضائع ہو جاتا ہے جبکہ  وٹامن ڈی   قائم ودائم
رہتا   ہے۔                                 وٹامن اے سورج کی شعاعوں سے بھی ضائع            ہو جاتا ہے۔ اور وٹامن ڈی ضائع نہیں
ہوتا۔بلکہ بڑھ جاتا ہے۔
اس وٹامن کو اینٹی ریکی ٹک وٹامن کہتے ہیں اس کی کمی سے جسمانی ہڈیاں نرم ہو کر ٹیڑھی ہو
 جاتی ہیں۔اس کا بکثرت استعمال مضر صحت کا سبب بنتے ہیں یہ وٹامن  بازار میں سے بھی مل
جاتے ہیں۔

وٹامن ای
...................
 یہ وٹامن حرارت سے ضائع نہیں ہوتے مگر چربی  میں حل ہو جاتے ہیں۔یہ گندم کے بیج میں
بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ    یہ سبز  اور مکھن  مکئی میں موجود ہوتا ہے۔ اس  
وٹامن کی کمی سے سلسلہ تناسل ختم  ہو جا تا ہے۔یعنی مردوں میں عقر                      اور خصیے کا نیچے اترنا،عورتوں
میں اسقاط حمل    اسی وٹامن کی  کمی سے وقفہ پزیر ہوتا ہے۔

وٹامن کے
..............
مختلف قسم کے  سبزیوں میں یہ وٹامن بکثرت پایا جاتا ہے۔ مگر یہ پالک ،گوبھی،ٹماٹر،  گاجر
کے پتوں اور  سبزیاں اور پھلوں سویا بن کے تیل اور سمندری گھاس  میں بھی پایا جاتا ہے حرارت اس
پر اثر انداز نہیں ہوتی۔یہ وٹامن جگر کے فعل کو درست رکھنے اور بہتے ہوئے خون کو جمنے میں مدد
دیتا ہے ۔حاملہ عورتوں کو زچگی سے قبل یہ وٹامن استعمال کرا دیا جائے۔تو بچے کے لیے جریان
خون کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔یعنی خطرہ ٹل جاتا ہے۔ اس وٹامن نے لاکھوں نوازئیدہ بچوں اور
ماؤں کو بچایا ہےاس وٹامن کو معلوم کرنے  والے کو نوبل پرائز ملا ہے۔اس کو یرقان،سدی رقت
خون جریان خون بعدازولادت جریان خون بعد آپریشن  مزمن شیور جلدی میں استعمال کرنے  سے
نہایت کامیاب ثابت ہوتا ہے۔

وٹامنز
.............
وٹامن کا نام سب سے پہلے مشہور ماہر غذا ڈاکٹر فنک نے 1914ء میں استعمال کیا تھا۔اس
سے پہلے وٹامن کے متعلق صرف اسی قدر ہی معلوم ہو سکا تھا کہ ان اجزاء کی عدم موجودگی جسمانی
صحت اور نشونما پر  برا اثر ڈالتی ہے۔ لیکن اب سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ سائنس دان وٹامن
کو کھانے کی مختلف اشیاء سے خالص صورت میں علیٰحدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ وٹامنز پانی میں حل ہو جاتے ہیں۔

وٹامن
.........
یہ وٹامنز  (حیاتین) کا ایک بہت بڑا مرکب    ہے۔اس میں 12 مختلف ساخت اور افعال
رکھنے والے وٹامنز شامل ہوتے ہیں۔یہ جوہر پیچیدہ ہے اور تمام وٹامنز  (حیاتین) سے پہلے
دریافت ہوا تھا۔اس وٹامن کے جو اجزاء دریافت ہوئے ہیں کہ وہ زیل میں تحریرکر دئیے ہیں۔
1۔وٹامن                     ------ B1
2۔وٹامن------ B2
3۔وٹامن------B3
4-وٹامن------B4
5۔وٹامن------B5
6۔وٹامن------B6
7۔وٹامن------B7
8-وٹامن------B8
9-وٹامن------B9
10-وٹامن-----B10
11-وٹامن-----B11
12-وٹامن-----B12
وٹامن                 B1 
.............
اس وٹامن کا کیمیائی نام تھایامین اورا نیوارین بھی ہے۔اس کے مختلف نام
ہیں۔تھایامین اینٹی نیورے ٹک وٹامن ،غذا میں    اس کی کمی سےمختلف امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ 
مثلاً ضعف المعاء،قبض،اعصابی سوزش، استسقاء اور آنکھوں کے  عضلات مفلوج ہو جاتے ہیں۔
بینائی سے انسان محروم ہو جاتا ہے۔ذہنی انتشار ظاہر ہونے لگتا ہے۔ہاتھ پاؤں سوجھ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ فالج (استرخا) رعشہ،لقوہ، حاملہ کی شدید قے،بھوک نہ لگنا  یا کم لگنا،ضعف قلب،
نقصالدم دائمی قبض اور بیری بیری کے واسطے فائدہ بخش ہے۔اس وٹامن کی  کثرت،گوشت اور
گیہوں میں پائی جا تی ہے۔یہ وٹامن سالم اناج   میں پایا جاتا ہے۔مونگ  پھلی کے تیل میں بھی اس
کی مقدار کافی ہوتی ہےگندم کے دانے  کا وہ حصہ جس سے بالی  نکلتی ہے۔اس کا سرچشمہ ہے۔دودھ
بالائی اترا ہوا،سنگترے،مٹر ،پالک ،چوزہ،مچھلی،گوبھی،لوبیا،سیب سرخ،مرچ،شلغم،چقندر شکر
قندی،آڑو،پینر اسکے بہترین ذرائع ہے۔

وٹامن                                                 B2
...............
اس کا کیمیائی نام رایبو فلمون ہے۔غذا میں کمی  کی صورت میں باچھیں پک جانے کا عارضہ
ہوتا ہے۔ ہونٹوں پر خراشیں پڑ جاتی ہے۔زبان سوجھ جاتی ہے۔ اور زخم ہو جاتے ہیں جلد پر  اور ناک
کے قریب سرخ چھلکے سے بن  جاتے ہیں۔اور ناک خشک رہتی ہے۔ آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑ
جاتے ہیں۔بال جھڑنے لگتے ہیں خصیوں میں ورم پاؤں میں ورعد کے  امراض ہو جاتے ہیں یہ پانی
میں حل ہو جاتے ہیں۔ اور حرارت سے ضائع نہیں ہوتے ۔ترشی  کی شمولیت اس کو مزیدار محفوظ کر دیتی
ہے۔یہ وٹامن،کلیجی،گردے،جگر،دل،اناج،مونگ پھلی،گوشت،دودھ،مچھلی،انڈا، مرغی،پتوں
والی سبزی،سالم گیہوں کے دانے ،شلغم کے پتے،ہرے پیاز ،پالک   اور سرسوں کا تیل قابل ذکر ہیں۔
روشنی سے یہ تلف  ہو جاتی  ہے۔یہ ٹیکہ اور گولیوں کی صورت میں بازار میں موجود ہے۔

وٹامن B3
...............
کیمیائی نام نکو ٹینک ایسڈ ہے۔اس کا ایک اور نام نیاسین بھی ہے۔پانی میں حل ہو جاتا ہے۔
حرارت سے ضائع  نہیں ہوتا ہے۔کاربوہائیڈریٹس والی غذاؤں، چکنائیوں اور  پروتینی ترشوں
کے استعمال میں مدد دیتی ہے۔ اس کو   اینتی پلیگر                                             اوٹامن سے بھی پکارا  جاتا ہے۔اس کی کمی مرض پلیگر
کا باعث بنتی ہے۔بھوک کی کمی ہوجاتی ہے۔زبان سرخ اور اس پر خراشیں  پڑ جا تی ہے۔جلد،
نظام انہضام،دماغ متاثر  ہو جاتا ہے۔اسہال کا مرض ہو جاتا ہے۔مریض وہمی و جنونی سا ہو جاتا ہے۔
حافظہ کمزور اور مالیخولیا کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہے۔جنسی خواہش ندار، پیشاب کا جل کر  آنا، عورت
میں  حیض کی بے قاعدگی اور وزن میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

وٹامن B4
...........
انسانی جسم کے عضلات میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے۔گندم اور انڈے اس کی صحیح خوراک
ہے۔

وٹامن  B5
...........
اس کا کیمیائی نام پینٹو تھینک ایسسڈ ہے۔اس کی کمی  سے عصبی نظام متاثر ہو جاتا ہے۔غذا میں
اس کی کافی مقدارمیں قوت برداشت پیدا کرتی ہے۔جو سردیوں کی سختی برداشت کرنے کی ہمت
پیدا کرتا ہے۔کلاہ گردہ ہاضمے کی نالی او ر آلات تنفس بھی متاثر ہوتے ہیں۔اس کی کمی وقت سے
قبل بال سفید کر دیتی ہے۔پاؤں میں جلن پیدا ہوتی ہے۔
یہ وٹامن جگر کی بےقاعدگی کو رفع کرتا ہے۔جلدی امراض اور آنتوں کی کئی بیماریوں کو دفع کرتا
ہے۔ وٹامن بکرے کی ران کا گوشت،خمیر،انڈے،گردے،کلیجی،دل،بھیجا،کھنبی،گیہوں جو
مونگ پھلی،سویا بین ہرے پتوں والی سبزیاں گریاں،مغز،سالم اناج،میں پایا جاتا ہے۔پکانے یا
بھاپ پر گرم کرنے سے اس  کی قلیل مقدار ضائع ہو جاتی  ہے۔

وٹامن  B6
...........
اس وٹامن کا نام پیری ڈوکسن ہے۔اس کو عضلاتی تکلیفوں میں استعمال
کرتے ہیں۔اس کی کمی سے بچوں  کو  تشنج  کے دورے پڑ جاتے ہیں۔ بڑوں میں گرمی لگنا،اعصابی
سوزش زبان ہن اور ہونٹوں کی سوجن جلد  کی خشکی یا داغ دھبے،رنگ پیلا پڑنے اورخون کی کمی کی
شکا ئتیں پیدا ہو جاتی ہے۔اور بعض مریضوں کے دانت گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ وٹامن انڈہ،
گوشت،کلیجی جگر ہری  سبزیوں خمیر سالم خاص کر اناج  کے چھلکوں میں اس کی بہت مقدار پائی
جاتی ہے۔حمل کے  دنوں میں اس کی ضرورت اور بڑھ جا تی ہے ۔یہ ایام حمل کے دوران قے اور
درد شقیقہ (آدھے سر کی درد) کو دور کرتا ہے۔خون کی کمی کو  فائدہ دیتا ہے۔شدید حالات میں
50 تا 100 ملی گرام عضلاتی انجکشن دیں یہ بازار میں ان ناموں سے مل سکتا ہے۔ پائرے
ڈاکسن  اور بنڈن

وٹامنB7
.............
اس وٹامن کا کیمیائی نام بائیوٹن ہے۔اس کی کمی کی وجہ سے ہمارے جسم  میں 
  خون کے سرخ ذرات میں ب حد کمی واقع ہو  جاتی ہے۔نتیجتاً  بعض دماغی عارضے بھی پیدا ہو
جاتے ہیں۔زبان چھوٹی اور زرد رنگ کی ہو جاتی ہے۔جلد کی سوزش ہو جاتی ہے۔اس وٹامن کا سر
طان سے بھی تعلق تسلیم کیا گیا ہے۔اس وٹامن کی کمی  سے انسان بے ہمت اور
سست ہو جاتا ہے۔ اور ملیریا کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔بھوک ندارد، متلی اور قے کی شکایت
اس کی قدرتی ذرائع یہ ہیں۔سیب ،کیلا ، لوبیا،گائے کا گوشت،چقندر،گیہوں،بند گوبھی،
مرغی کا گوشت،مکئی،انڈا، گائے کا دودھ،گڑ،پیاز،مٹر،پالک، شلغم ،گاجر،پینر،وغیرہ۔

وٹامن B8
.............
کیمیائی نام فولک ایسڈ، فولک ایسڈ تندرستی قائم رکھنے کے    کے لیے روزانہ نصف گرام سے
دو ملی گرام تک درکا ر ہے اگر پوری مقدار مل جائے  تو ہاضمہ درست ہے۔خون کے خلیوں کی تولید 
ہوتی رہتی ہے۔اور ہڈی کا گودا صحیح حالت میں رہتا ہے۔یہ وٹامن خون کے سرخ گودے کی صحت
اور فعل کے لیے ضروری ہے۔اس کی کمی خون کی کمی کا باعث بنتی ہے۔منہ آجاتا ہے۔زبان    
سوج جاتی ہے۔       دست آنے لگتےہے۔بدن کمزور ہو جاتا ہے۔اور ہاتھ پاؤں میں سوئیاں سی
چھبنے لگتی ہے۔
یہ خمیر،دودھ گوشت،کلیجی،گردے،جگر،ہرے پتوں والی سبزیاں گھاس میں بھی یہ وٹامن
ہوتا ہے۔

وٹامن B9
.............
کیمیائی نام انیو سیٹال (INOSITAL) ہے یہ وٹامن بی کمپلیکس کے  کنبے کا  ایک فرد ہے۔اس
کی کمی گنجا پن پیدا کرتی ہے۔ہاضمہ اثر انداز ہوتا ہے خمیر کلیجی اور گوشت  میں پائی جاتی ہے۔

وٹامن   B10
.............
اس کا  کیمیائی نام کولین (CHOLINE)ہے۔اس وٹامن کی کمی کے  باعث جسم کی چربی
ٹھیک تقسیم نہیں ہوتی۔اس کی کمی جگراور گردوں پر  اثر انداز ہو تی ہے۔بیماریوں کے جراثیم کی
مدافعت کر نے کی طاقت کمزور پڑ جاتی ہے۔  کو لین بچو ں  کی نشوونما بیضہ تولید کے لیے لازمی چیز
ہے۔یہ عورت کی چھاتیو ں میں         بچے کی خوراک  یعنی دودھ تیار کرنے میں مدد دیتا ہے۔خون کے
دباؤ۔دل کی کمزوری اور ورم معدہ کے لیے بھی  بہت اچھی چیز ہے۔اس وٹامن کی کمی مندرجہ
ذیل اشیاء سے حاصل کی جا سکتی ہے۔اناج اور سبزیاں مثلاً جو گیہوں،بند گوبھی،گاجر،مٹر ،مچھلی
انڈے،گردے،کلیجی،پیاز، اجوائن     پالک۔ان میں بہترین ذریعہ بکرے کا مغز ہے۔

وٹامن   B11
.............
کیمیائی نام پیرا  مینو بینز وٹک ایسڈ (Para amino Benzic Acid )ہے۔
اس کی کمی سے سر کے بال سفید ہو جاتے ہیں۔ اور آنتوں میں رہنے والے مفید جراثیم کا عمل بری
طرح متاثر ہوتا ہے۔اس کی مناسب مقدار میں موجودگی ٹی بی کے جراثیم کو ہلاک کر دیتی ہے۔اور
سورجی شعاعوں کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔اس کے قدرتی ذرائع اناج،سبزیاں،انڈا
دودھ،خمیر،کلیجی ہیں۔ ان کے استعمال                             سے                                                                                                                                                                                                                              دھوپ کی شدت اور تمازت برداشت کرنے کی طاقت
کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
وٹامن   B12
.............
یہ وٹامن 1950ءمیں  حاصل کیا گیا ۔نفث الدم مہلک کا شافی علاج لیور ایکسٹر یکٹ کے 
استعمال  کو سمجھا جاتا ہے۔اس جوہر میں سے ایک سرخ رنگ کا جوہر دریافت کیا گیا ہے۔جسے
وٹامن  بی 12 کا نام دیا گیا ہے۔یہ جوہر مہلک قے  الدم،ضعفد اعصاب سنگر ذہنی کا شافی علاج ہے۔
اس جوہر کا سلوشن گلابی رنگ کا ایک سی سی  کے ایمپیول میں  بکتا ہے  مختلف طاقتوں
(100-250-1000)مائیکروگرام میں ہوتا ہے۔یہ ٹیکہ تیسرے یا چوتھے روز   عضلہ میں
لگاتے ہیں۔اس کے تجارتی نام سائی ٹامن ہے۔جنرک نام سائنو کو بیلامن
یہ وٹامن ان اشیاء کو استعمال کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔
کلیجی،جگر،گردہ،دودھ،گوشت،سویابین اور دل وغیرہ۔

وٹامن سی
............
کیمیائی نام اسکوریک ایسڈ

وٹامن سی کی کمی کے اثرات
..........................
چہرے پر جھڑیاں  پر جانا ہڈیاں اور دانتوں کاکمزور  ،مسوڑھوں سے خون بہنا،گنٹھیا اور
جوڑوں کی تکلیف ،وزن میں کمی ہونا ،قوت مدافعت    کا ضعیف ہو جا نا،   زخموں کا جلدی مند مل نہ ہونا
ان تمام مشکلات کوسکروی کہتے ہیں۔اس لیے اسے اینٹی سکور بوٹک وٹامن کہتے  ہیں۔

وٹامن سی کی افادیت
.........................
متعدی   امراض  سے محفوظ رکھنا۔اعصابی کو مضبوط بنا نا۔نظام ہاضمہ کی اصلاح کرنا وائرس
کے امراض مثلاً نزلہ اور زکام کی روک تھام  کر نا،عو رتوں میں حیض کی  باقا  عد  گی،دردزہ کی حالت
میں نفع بخش  التہاب مفاصل اور لتہاب جلدی میں  فائدہ مند چنبل کالی کھا نسی کے لیے تیر بہدف۔

وٹامن سی کی موجودگی
.....................
یہ وٹامن تازہ پھلوں اور سنگترہ کینوں اور امرود اور سبزیوں میں گوبھی شلغم ٹماٹر لیموں میں 
بکثرت پایا  جاتا ہے۔ مگر دالوں اور دودھ میں اس کی مقدار کم  ہوتی ہے۔

وٹامن کا استعمال
...............
2/5 تا 1/2 کے لیے اور علاج کے لیے             3 تا 83 گرین استعمال میں      لائی جاتی ہے۔

وٹامن پی کی کمی کے اثرات
........................
 پر  پیورا اور میمو فعلیاں کا پیدا ہونا ،در د گردہ اور بعض دیگر امراض بڑھ جانا اور عروق  شعریہ
سے خون کم کرنا۔

وٹامن پی کی افادیت
..................
جلدی امراض، ذیا بیطس،فشار الدم        اور گنٹھیا  وغیرہ سے محفوظ رکھنا اور فائدہ دینا۔

وٹامن  پی کے قدرتی ذرائع
........................
سیب، خوبانی،چقندر،انگور،گریپ فروٹ،لیموں،خشک  آلو بخارا،پالک اخروٹ،
وغیرہ۔