Monday 25 January 2016

مریض کے احکام غذا

مریض کے احکام غذا
------------
غذا کے بارےمیں مندرجہ ذیل ہدایات پرعمل کرنا چاہیے۔

1۔غذا ملی جلی ہونی چاہیے
.......................
صرف ایک    اکیلی چیز کھا کر ہمارے جسم کی تمام ضروریات پوری نہیں ہو  سکتیں۔اس لیے
ہمیں بہت سی چیزیں ملا کر کھانا پڑتی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ  دودھ ایک مکمل غذا ہے۔مگر
یہ خیال بھی کسی قدر صحیح نہیں کیونکہ دودھ میں فولاد نہیں ہوتا۔اس طرح کچے گوشت کے متعلق بعض‎
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مکمل غذا ہیں۔مگر اول تو کچا گوشت کھانا کس قدر مشکل ہے دوسرے گوشت
میں کیلیشم یعنی چونا نہیں ہوتا۔
ڈبل روٹی میں کاربوہائیڈ  ریٹ تو ہوتے ہیں۔مگر چکنائی معدنی نمک اور حیاتیں نہیں 
ہوتے اس کے برعکس مکھن کاربوہائیڈ  ریٹ  اور پروٹین نہیں ہوتے۔اس لیے ہمیں اپنی تمام تر
ضروریات یعنی اچھے قسم کے پروٹین،مقررہ حرارے معدنی نمکیات اور حیاتین حاصل کرنے کے
لیے ایک سے زیادہ چیزوں کو ملا کر کھانا پڑتا ہے۔

2۔روزانہ ہی ایک قسم کی غذا
...........................
ہر روز ایک ہی قسم کی غذا کھانے سے طبیعت اکتا جاتی ہے۔اور اس میں وہ ذائقہ  اور لذت
بھی ہو۔کچھ مزہ نہیں دیتی اور جو خوراک مزیدار لگتی ہو آسانی سے ہضم نہیں ہوتی۔

3۔غذا صاف اور اچھی ہو
...........................
ہمیں چاہیے کہ ہم غذا میں استعمال ہونے والی اشیاء تازی اور صاف ستھری خریدیں۔گلی
سڑی اور باسی اشیاء استعمال نہ  کریں۔مزید ان کو ڈھانپ کر رکھیں۔بازاروں میں بکنے والی  اشیاء
عام طور پر کھلی اور ننگی پڑی رہتی  ہیں۔جن پر گردو غبار اور مکھیوں کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ان کو استعمال کرنے
سے ہیضہ بدہضمی اور دستوں کی بیماریاں ہو جاتی ہے۔

4-غذا میں پروٹین وغیرہ ہونے چاہیے
.....................................
غذا میں اعلیٰ قسم کے پروٹین حرارے معدنی نمکیات اور حیاتین اس مقدار میں مل سکیں جن
سے ہمارے بدن/جسم کی ان کو  ضروریات ہے

5۔غذا مزیدار ہونی چاہیے
................................
غذا کی موجودگی میں اگر اشتہا پیدا ہوتی ہو تو اس کی وجہ سے معدہ میں غذا کو ہضم کرنے
والے عروق زیادہ مقدار میں  رہنے لگتے ہیں۔

6۔زدوہضم غذا
...................
غذا    زدو  ہضم  سے مراد یہ نہیں ہے کہ خوراک قدر جلد معدے سے گزر کر چھوٹی آنت میں پہنچ
جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غذا آلات انہضام  میں کتنے عرصہ میں تحلیل ہو کر جذب ہوتی 
ہے اور جزو بدن بنتی ہے۔

7۔موسمی اثرات
...................
سرد ملک کے لوگ گرم  ملک کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ غذا کھاتے ہیں۔کیونکہ انہیں
اپنے جسم کے درجہ حرارت کو برقرار  رکھنے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی غذا میں چربی
اور روغنیات شامل ہوتے ہیں۔ مگر گرم ملک  کےلوگ گرمیوں میں غذا کم استعمال کرتے ہیں۔اور
مشروبات زیادہ اور سردیوں میں غذا گرمیوں کی نسبت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔

8۔وقفہ طعام
.....................
کھا نا کھانے کے اوقات مقر ہونے چاہیے اور ان کا درمیانی وقفہ کم سے کم پانچ گھنٹہ ہونا
چاہیے شیر خوار اور چھوٹے بچوں میں یہ  وقفہ کم ہونا چاہیے۔کیونکہ دودھ جلد ہضم ہو جاتا ہے۔اور
چھوٹے بچے  بڑوں کی نسبت کم کھانا کھاتے ہیں۔

9۔طریق طعام
.......................
کھانا آہستہ آہستہ  اور اچھی طرح چبا کر خاموشی اور اطمینان سے کھانا چاہیے۔ذہن میں 
کسی قسم کا دباؤنہ ہو۔

10۔شکم سیری
...................
پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھانا نہیں چاہیے۔بلکہ کم کھانا چاہیے۔
حضور پاکؐ کا فرمان ہے کہ آدھی بھوک رکھ کر کھا نا کھانا چاہیے۔جن میں کھانا کھا نے 
کے بعد تبخیری کیفیت پیداہو جائے۔وہ دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی بجائے۔ دن میں تھوڑا تھوڑا 
تین یا چار مرتبہ کھانا کھائیں۔

11۔ہاتھوں کا دھونا
.........................
حضور پاکؐ کا فرمان ہے کہ کھانا کھانےسے پہلے ہاتھوں کو دھو لینا چاہیے۔ کیونکہ ہاتھوں
کے ساتھ جراثیم چمٹ جاتے ہیں۔اور  کھانا کھاتے  وقت وہ پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔اور
بیماریاں  پیدا کرتے ہیں۔ کھانے کے بعد پھر ہاتھوں کو دھو لینا چاہیے۔اور دانتوں میں مسواک
کریں تاکہ دانتوں میں جو کھانے کے ذرات پھنس گئے ہیں۔وہ نکل جائیں وگرنہ وہ گل سڑ کر
دانتوں کی بیماریاں پیدا نہ کر دیں۔

12۔کھانے کے بعد آرام
............................
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑا سا آرام کر لینا چاہیے۔لیکن رات کا کھانا کھانے کے بعد
تھوڑی سی چہل قدمی کر لینی چاہیے۔ہمارے ہاں رواج  یہ ہے کہ رات کو کھانا کھانے کے بعد 
فوراََ بعد بستر دراز ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے اکثریت  بد ہضمی کی شکایت کرتی ہیں۔ان کوچاہیے
کہ و ہ تھوڑی سی چہل قدمی کر   لیا کریں۔

13۔ کھانے کے بعد ذہنی و جسمانی مشقت
............................................
کھانا کھانے کے بعد ذہنی و جسمانی مشقت گریز کرنا چاہیے۔کیونکہ جب معدہ
میں غذا ہو تو طبیعت غذا کے ہضم کر نے کی طرف متوجہ کرتی ہے اور زیادہ خون معدہ کی طرف جاتا ہے۔
تاکہ رطوبت ہاضم زیادہ تراوش پائے اگر ایسے وقت میں کوئی جسمانی یا ذہنی محنت کی جائے تو 
طبیعت اور خون کا میلان دوسری طرف ہو جاتا ہے۔اور معدہ کی طرف کم خون آنے کی وجہ سے
رطوبت ہاضم کم متر شح ہوتی ہے۔اس طرح  غذا بخوبی ہضم نہیں ہوتی۔

14۔کھانا کھانے کے دوران
.................................
مشغول طعام کے وقت دھیان کاِادھراُدھر نہیں  دینا چاہیے۔

15۔ کھانا کھانے کے بعد
.................................
کھانا کھانے کے بعد غسل اور جماع کرنا بھی صحت کے لیے مضر ہے۔

16۔پھیکی،ترش،نمکین اور شیریں غذائیں
..............................................
پھیکی غذائیں استعمال کرنے سے رطوبت پیدا ہو کر بھوک کم لگتی  ہے
ترش غذائیں استعمال کرنے سے بڑھاپا جلدی عارض ہو جاتا ہے اور ترش غذاؤں کے
ذیادہ استعمال سے معدہ کمزور  ہوجاتا  ہے۔معدہ میں ترشی کی تحریک سے رطوبت ہاضم زیادہ پیدا ہوتی
ہے۔
نمکین غذائیں استعمال کرنے سے خشکی اور لاغری پیدا ہو جاتی ہے۔
شیریں  غذائیں استعمال کرنے سے معدہ اور بدن ڈھیلا ہو جاتا ہے

17۔مرکب غذاؤں کا استعمال
................................
طبیبوں نے نیچے دی ہوئی چند غذاؤں کو اکٹھا استعمال  کرنے سے منع کیا ہے۔
1۔ترشی کے ساتھ دودھ کا استعمال
2۔مچھلی کھانے کے بعد دودھ لینا،اس سے فالج،جزام اور برص کی مانند چند مضر امراض لاحق
ہو جاتے ہیں۔
3۔دودھ اور دہی کی لسی کوملا کر استعمال کرنا بھی خطرناک ہے۔
4۔جانوروں کے سری پائے کھانے کے بعد انگور نہیں کھانا چاہیے۔
5۔حلیم کھانے کے بعد انار نہیں کھانا چاہیے۔
6۔چاول کھانے کے بعد سرکہ نہ پینا چاہیے۔یہ صحت کے لیے خطرناک طریق ہے۔

غذا کے اقسام
--------------
عناصر کی ترکیب کے لحاظ سے اجزاء غذا    تین قسم کے ہوتے ہیں۔
   1۔نباتاتی                      
   2۔حیوانی
   3۔معدنی
لیکن تغذیہ جسم میں غذائیت پہنچانے کے مناسبت سے اس کی چھ قسمیں ہیں۔

غذا کے بنیادی اجزاء
.....................
اچھی اور متوازن غذا وہ ہے جو جسم کے ہر خلیے کو قائم و دائم رکھے اور طاقت بخشے،اچھی غذا میں
مندرجہ ذیل بنیادی غذائی مادے ہونے چاہئیں۔
    1۔پروٹینز (اجزائے لحمیہ)
    2۔کاربو ہائیڈ ریٹس(نشاستہ دار اجزاء) 
    3۔چکنائی
    4۔معدنی نمک
   5۔پانی
   6۔وٹامن
پروٹین کی بہترین مثال انڈے کی سفیدی ہے۔اس میں پانی اور پروٹین میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اگر جانوروں کی  ہڈیاں اور کھال کو پانی میں دیر تک جوش دیں تو جو لیسدار مادہ نکلتا
ہے۔وہ بھی خالص پروٹین ہے مگر یہ ضروری  نہیں ہے کہ بطور غذا بھی یہ بہترین پروٹین ہو۔دودھ
اور پینر میں بھی پروٹین موجود ہوتا ہے۔علاوہ ازیں گیہوں،آٹا،چاول مٹر اور دالوں میں بھی
پروٹین موجود ہوتاہے  ۔
پروٹین بلحاظ نوعیت دو طرح کے ہوتے ہیں۔

1۔حیوانی پروٹین
.......................
 جو گوشت ،مچھلی،انڈے اور دودھ سے حاصل ہوتے ہیں۔

2۔ نباتاتی پروٹین
.........................
جو گیہوں کے آٹے چاول اور دالوں سے حاصل ہوتے ہیں۔   حیوانی پروٹین ،نباتاتی پروٹین
کے مقابلہ میں زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔کیونکہ یہ ہاضمے کے دوران ہی جزو بدن ہو کر  جسم میں 
پروٹین کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔اس کے برعکس نباتاتی پروٹین  جسم میں حرارت اور قوت تو
پہنچا سکتے ہیں۔مگر جزو بدن نہیں بنتے کیونکہ ان میں ضروری امینو ایسڈ نہیں ہوتے ہیں۔مگر اس کے
باوجود جسم کو دونوں قسم کے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہماری غذا میں حیوانی اور نباتاتی
دونوں طرح کے پروٹین ہونے  چاہیے۔پروٹین میں کاربن اور ہائیڈروجن موجود ہوتے ہیں۔
اس  لیے یہ جسم میں ایندھن  کا کام بھی دیتے ہیں۔
پروٹین متوازن غذا کے لیے سب سے مقدم ہے۔ پروٹینی غذآ کے استعمال سے جسم کی
طاقت بحال رہتی  ہے۔گوشت،چوزہ،دل، گردے،دودھ ،دہی،انڈے،مونگ پھلی اور آلو وغیرہ ۔
میں پروٹین وافر مقدار میں ہوتےہیں۔
                                                                                                                                                      
3۔کاربوہائیڈریٹ(نشاستہ دار غذا)                     
.........................................
ان کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔
                                                          کاربن ،ہائیڈروجن،آکسیجن
ان میں دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن ہوتی ہے۔ اس لیے ان کو کاربو ہائیڈریٹ
کہتے ہیں۔ان میں تمام تر نشاستہ دار غذائیں اور شکر شامل ہیں۔نشاستہ اور شکر  زیادہ تر نباتاتی
ذرائع سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔     ََََََََمثلاََََََ                                    مختلف اناجوں اور جڑوں جیسے گیہوں،چنا ،مکئی ،جوار،                                                       
باجرہ،چاول،آلو،شکرقندی                    وغیرہ سے مگر ، دودھ میں جو ایک قسم کی شکر پائی ہے۔وہ تو صرف
حیوانی ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔کاربوہائیڈریٹس نسبتاََ جلد ہضم ہو جاتےہیں مگر اصول
حفظان کسی کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ ضرورت سے زیادہ کھایا جائے یا ضرورت سے زیادہ
 کھایا جائے۔ضرورت  سے زیادہ کھانے سے نظام ہاضمہ پر بوجھ پڑتا   ہے۔نظام ہاضمہ خراب
ہو جاتا ہے اور اسہال کی مرض لاحق ہو  جاتی                                                                                                                                                             ہے۔کم کھانے  کی صورت         میں جسمانی  کمزوری ہو
جاتی ہےانسان پر جلد بڑھاپا طاری  ہو جاتا ہے۔ایک عام تندرست جوان  کو چوبیس گھنٹے میں8 سے
10 چھٹا نک تک نشاستہ دار غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔کھانے کے معاملے میں اعتدال پسندی
بہتر ہے۔

چکنائی
............
یہ کاربن،ہائیڈروجن اور              آکسیجن کا مرکب ہے،یہ غذا  ایک ضروری حصہ ہے۔اور
ہمارے جسم میں  قوت اور  حرارت پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہ نباتاتی اور حیوانی
دونوں ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔مگر حیوانی چکنائی مثلاََََ گھی مکھن وغیرہ                          اور نباتاتی تیلوں کے
مقابلہ میں زیادہ بہتر  ہے کیونکہ اس میں حیاتین (الف) موجود  ہوتا ہے۔نباتاتی چکنائیوں
میں صرف سرخ کھجوریں کے تیل میں حیاتین (الف) موجود ہوتا ہے
نباتاتی چکنائیوں میں مار گرین روغن،زیتون،سرسوں کا تیل،مونگ پھل کا تیل،بناسپتی گھی
وغیرہ شامل ہے،غذا کی چکنائی پر لعاب دہن اور معدے کی رطوبتیں اثر نہیں کرتیں۔یہ معدے
سے چھوٹی آنت میں ویسی کی ویسی گزر جاتی ہے۔مگر یہاں پہنچ کر جگر صفرا  اور لبلبہ   کے
عروق چکنائی کو شیرے میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
اس شیرے میں چکنائی  چھوٹے چھوٹے ذرات پانی میں  تیرتے رہتے ہیں لبلبہ کے عروق پر
اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔دودھیا رنگ کے  اس شیرے  کو کیلوس کہتے ہیں۔چھوٹی
آنت کی اندرونی جلد میں کچھ کانٹے  کھڑے ہو جاتے ہیں۔جن کو ولائی کہتے ہیں۔
کیلوس ان ولائی کے زریعہ لیمپن میں شامل ہو کر بعد  میں خون کی بائیں جانب کی
رگوں میں  شامل ہو جاتا ہےاور اس طرح جگر تک نہیں پہنچتا۔چکنائی کا کچھ حصہ آنتوں فیٹی
ایسڈ گلیسرین بن کر بھی جذب ہو جاتا ہے۔
ہمارے ملک کے لوگوں کی غذا میں چکنائی کی کمی ہو جاتی ہے۔یہ کیونکہ چکنائی والی اشیاء
خریدنے کی ان میں  طاقت نہیں ہوتی ہر آدمی کو  ایک دن میں کم از کم 100 گرام چکنائی
ضرور استعمال کرنی چاہیے۔
چکنائی کا کام جسم میں صرف حرارت اور قوت پیدا کرنے کے علاوہ یہ جسم کےچربی دار
بافتوں کی مناسب مرمت کرتی ہے اور نئی بافتیں بھی بناتی ہے۔چکنائی
دوسری غذا کے ہضم ہونے اور جزو بدن بننےمیں بھی معاون رکھتی ہے۔جس سے کافی دیر تک
 بھوک محسوس نہیں ہوتی ہے۔اگر غذا میں کاربو ہائیڈریٹ ہوں تو  غذا معدے سے بہت جلد تحلیل ہو
جاتی ہے۔جس کی وجہ سے بار بار بھوک لگنے لگتی ہے۔جس کے نتیجے میں ہاضمے سے خرابی پیدا
ہو جاتی ہے۔

معدنی نمک
....................
ہمارے جسم میں بہت سے نمک پائے جاتے ہیں مثلاََََََ کھانے کانمک کیلشیم اور سوڈیم کے
فاسفیٹ اس کے علاوہ کچھ فولاد کا بھی۔معدنی اور دیگر نمکیات قیام صحت اور انسانی زندگی کے
لیے بہت ضروری ہیں۔ان کے بغیر زندگی اور حیات محال ہےنمکیات غذا ہضم ہونے  میں طبیب
 کا کام  دیتے ہیں،اس کی وجہ سے جسم میں                             پانی ذخیرہ جمع رہتاہے گہری نیند  آتی ہے  جسم کو کمزور
ہونے سے بچاتے ہیں۔یہ غدودوں کی ر طوبتوں  پر اثر انداز ہوتے ہیں۔نظام انہظام کے لیے
مفید ہیں خون کو  جسم میں             رواں دواں  رکھتے ہیں۔اس لیے ہماری غذ ا میں معد نی نمکیات کا ہونا 
بہت اشد ضروری ہے۔ یہ دانتوں اور ہڈیوں کو مضبوط  بناتے ہیں۔ نمکیات کی علیٰحدہ علیٰحدہ اقسام ہوتی   ہیں۔
اللہ تعالیٰ  نے  نمکیات کھانے کی اشیاء میں   رکھی ہے مثلاًسبزپتوں والی سبزیاں  اور انڈوں میں بھر دی ہیں۔ان
کو کھانے سے نمکیات کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اگر ہمارے جسم میں قطعی طور پر نمکیات نہ
ہوں تو ہم بیمار ہو جائیں یہاں تک کے ہم زندہ بھی نہ رہیں۔ذیل میں چند معدنی نمک اور ان کے
خواص دئیے گئے ہیں

کیلیشم
................
یہ نمک چھوٹے بچوں کی ہڈیاں بنانے میں کام آتے ہیں کیلیشم دودھ پینر سبزپتوں والی 
سبزیاں  اور انڈوں   میں بکثرت  پائے جاتے ہیں  یہ جسم کی ہڈیوں کو مضبوط اور توانا بناتےہیں۔دل
کی حرکت باقاعدگی کو درست کرتے  ہیں۔                                                                 تپ دق کی روک تھام  میں مفید  ثابت ہوتے ہیں۔
بڑوں کی نسبت بچوں کو کیلیشم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کو روزانہ تقریباً ایک گرام اور
بڑوں کو 68 گرام  کیلیشم کی  ضرورت ہوتی ہے۔چاول کھانے والوں کو کیلیشم کی مقدار پوری نہیں
ملتی لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ کیلیشم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دودھ استعمال کریں۔
میگنیشیم
............
جسمانی اعصاب اور شریانوں کو توانائی بخشتا ہے  اور مضبوط بناتا ہے ذیابیطس کی اصلاح کرتا
ہے۔یہ لیمو ں،انجیر،گوبھی ،آلوبخارا اور گندم پایا جاتاہے۔

کلورین کا نمک
....................
 جسم میں جو زائد چربی ہے اس کو کم کرتا ہے۔قبض کشا  ہے یہ پینر ،پالک،انڈے کی سفیدی،
بکری کا دودھ،سلاد،آلو بخارا، مولی،ٹماٹر اور مکھن میں بکثرت سے پایا جاتا ہے۔

کاربن
...............
جسمانی حرارت کو برقرار رکھنے میں اس کا کردار موزوں ہے۔پھلوں میں یہ انگور ،سیب  اور
کھجور اور سبزیوں میں مٹر اورآلو اور دالوں گوشت میں ہوتا ہیں۔

فولاد
............
چہرے کی خوبصورتی اور سرخی ،حرارت جسمانی،ہاتھ پاؤں کی طاقت اور مضبوطی اور عمدہ یا
یاداشت فولاد  کی موجودگی کی مرہون منت ہے۔خون کے سرخ ذرات جو آکسیجن کو  تمام جسم میں
پہنچاتے ہیں۔یہ فولاد سے  بنتے ہیں۔اگر ہمارے جسم میں کے فولاد کو اکٹھا کیا جائے تو اس مقدار سے
ایک ایک انچ کی دو میخیں تیار ہو سکتی ہیں۔

گندھک
..............
یہ جلد کے امراض کو روکتی ہے۔ انتڑیوں اور گنٹھیا میں مفید ہے۔بالوں کی جڑوں کو  جلا بخشتی
ہے۔ یہ زیادہ تر سیب ،بادام، لیموں،چقندر،تربوز،خشک انجیر اور ٹماٹر میں یہ معدنی نمک 
ہوتا ہے۔

فاسفورس
................
ہماری خوراک میں ایک گرام فاسفورس کی مقدار روزانہ ہونی چاہیے۔عام طور پر جس
خوراک میں کیلیشم ہوتا ہے۔اس میں فاسفورس بھی ہوتی ہے۔ ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتی 
ہے۔اعصاب اور دماغ کی کی تندرستی کو جلا بخشتی ہے اس کی کمی سے پائیوریا کا مرض ہو جاتا ہے۔
ہڈیوں میں مضبوطی   کی کمی ہو جاتی ہے۔یہ انڈے کی زردی،گوشت،مچھلی،مکھن،دودھ،زیتون،
مونگ پھلی،آلو بخارا                 اور مٹر میں پائی جاتی ہے۔حاملہ عورت کے لیے اس کی ضرورت بڑھ  جاتی 
ہے۔

آیوڈین
..............
یہ جسم کو موٹاپے سے محفوط رکھتی ہے۔ طاقت اور توانائی بحال رکھتی ہے۔ اور ذہنی پریشانیکا
بھی ازالہ کرتی ہے۔اس کی کمی سے گلہڑ موٹاپا اور ذہنی  پریشانی لاحق ہوجاتی ہے۔یہ زیادہ تر  مچھلی،
سلاد،گندم،گاجر،گوبھی ،اور ٹماٹر وغیرہ میں پائی جاتی ہے

پانی
..............
قدرت نے انسان کی ذندگی کا دارومدار  پانی پر رکھاہے۔جہاں پانی نہیں وہاں آکسیجن بھی
نہیں ہوتی ۔یہ دونوں یعنی آکسیجن اور پانی لازم وملزوم ہیں۔یہ انسان کی اندرونی اور بیرونی
ضروریا  ت  پوری کرتا ہے۔ہمارے جسم کا تقریباً 80 فیصد حصہ پانی ہے۔ اس لیے خوراک میں
پانی کا ہونا بہت ضروری ہے۔یہ ہاضمے میں مدد دیتا ہے۔اور ہضم شدہ خوراک کو تحلیل کرتا ہے۔
خوراک کا بیشتر حصہ صرف اسی صورت میں جزو بدن بنتا ہے۔جبکہ وہ رقیق حالات میں ہوں۔
اس کے علاوہ خون کو بھی رقیق رکھنے کے لیے پانی ضروری ہے۔زیادہ پانی پینے سے عرق ہاضم
کمزور ہو جاتا ہے۔اس لیے ہا ضمہ ضعیف ہو جاتا ہے۔
پیشاب وغیرہ کی صورت میں فضلات خارج کرنے کے لیے بھی پانی بہت زیادہ ضروری ہے۔
ایک آدمی کو  اوسطا 3/1/2/ پائنٹ   سے لےکر   5 پائنٹ تک روزانہ پانی  پینے کی ضرورت ہے۔
ایک پائنٹ   تقریباً دس چھٹانک کے برابر ہوتا ہے۔پسینہ  کے راستے ،پیشاب کےراستے اور سانس 
کےراستے سے جسم میں بہت سا پانی خارج ہو  جاتا ہے۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں  پانی
پینے کی ضرورت   ہوتی ہے۔زیادہ سرد پانی سے    بھی حرارت معدہ ضعیف ہو جاتی ہے۔نہارمنہ
 پانی پینا صحت  کے لیے مضر ہے۔

وٹامنز (حیاتین)
..................
وٹامنز غذا  میں موجود ان اجزاء کا نام ہے جو کہ انسان کی حیات و بقا کو قائم و دائم رکھ سکے۔
اگر ہم اپنی غذا کو متوازن رکھیں۔ تو وٹامنز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔بلکہ یوں کہنا چاہیے ہوتی ہی نہیں
ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متوازن غذا کا معیار کیا ہے؟ طبی نقطہ نگاہ سے متوازن غذا وہ ہے
جس میں پروٹین،کاربوہائیڈریٹ اور چکنائی مناسب مقدار میں  اور صحیح تناسب میں موجود ہوں۔
بعض اوقات ایسی بیماریاں ہیں جو کہ مناسب  غذا کے باوجود بھی جسم میں وٹامنز کی کمی کرنے کا
باعث بنتی ہے۔ ایسی بیماریوں میں وہ  بیماری  بھی شامل ہیں جو کہ انتڑیوں کے نظام انجذاب کو درہم 
برہم کر کے رکھ دیتی ہے۔مثلاً مال اپزاریشن سنڈ روم ،سپرو وغیرہ ان کے علاوہ کئی بار جسم میں
موروثی طور پر ایسے نقائص ہوتے ہیں۔جو کہ کسی خا                   ص                                                                                                                                                                                                                    وٹامنز کی مستقل  کمی کا  باعث  بن جاتے  ہیں۔
او یہ بیماری خاندان     کے    کے دیگر افراد       میں بھی مو جود ہوتی ہے۔ مثلاً پرنش  انیمیا      جو کہ     وٹامن
 B12  کی کمی سے ہوتا ہے ۔
وٹامن کا نام سب سے پہلے           مشہور ماہر غذا  فنک نے 1912ء میں استعمال کیا تھا۔شروع
شروع میں وٹامنز  کے متعلق صرف اس قدر ہی معلوم ہو سکا تھا۔ کہ ان اجزاء کی  غذا میں عدم
موجو دگی صحت اور نشوونما پر بڑا اثر ڈالتی ہے۔ حال ہی میں سائنسدان ان حیاتین کو مختلف غذاؤں
سے خالص صورت میں علیٰحدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں دودھ،انڈا، حیوانات کے جگر،
سبز ترکاریوں اور تازہ پھل ایسی چیزیں ہیں۔جن میں وٹامنز بکثرت پائے جاتے ہیں۔ہمارے
ہاں سبز ترکاریوں کو خوب پکایا جاتا ہے۔اس طرح وٹامنز ضائع ہو جاتے ہیں بہتر ہے کہ ہم اپنی
غذاؤں میں کچھ پکائے بغیر پکی ہوئی چیزیں بھی رکھیں۔یاد رکھیں کہ وٹامنز کی  مقدار بھی  تندرستی کو
قائم رکھنے کے لیے کافی ہے۔
وٹامنز  علیٰحدہ صورت میں بازار سے بآسانی مل سکتے ہیں۔مگر بہتر ہے کہ غذاؤں سے ہی
وٹامنز حاصل کیے جاتے ہیں۔

وٹامنز کی اقسام
..................
       روغنیات میں حل  پزیر وٹامنز درج زیل ہیں
1۔ ٹامن اے،وٹامن ڈی،وٹامن ای،         وٹامن کے
2۔ پانی میں حل پزیر
وٹامن بی کی  مختلف اقسام مثلاً تھایامین (بی)رائیبو فلیوین (ب2)  انکو ٹینک،ایسڈ اور
وٹامن بی کے دوسرے وٹامنز اور وٹامن سی اور وٹامن پی
 دوسرے وٹامنز، فولک ایسڈ، وٹامن B12 
اب ان میں سے ہر ایک کا حال کسی قدر تفصیل      سے بیان کیا جاتا ہے۔روغنیات میں حل ہو
جاتے ہیں۔                                                    
وٹامن اے
..................
یہ جو کیر وٹین             کی شکل میں سبزیوں میں قدرتی طور پر ہوتا ہے۔ یہ سبزیاں حیوانات کی غذا
 ہے جب  حیوانات یہ سبزیاں                    کھاتے ہیں۔ تو ان کے جسموں کے اندر جا کر   وٹامن اے میں تبدیل
ہوجا تا ہے۔ اس سے  یہ بات عیاں ہوئی کہ حیوانات جو سبزیوں اور سبز  پتوں کو کھاتے ہیں۔یہ
وٹامن سبزیوں  اور سبز پتوں کی وجہ سے ان میں موجو د ہوتا ہے۔اس لیے حیوانات جو سبزیاں اور سبز
پتے کھاتے ہیں ان کی چربی میں یہ وٹامن پایا جاتا  ہے۔کاڈ مچھلی کے جگر کے تیل میں یہ سب سے زیادہ
ہوتا ہے۔اس لیے انسانی جسم کی نشونما کے لیے ضروری ہے کہ یہ وٹامن اس کے جسم میں موجود
 ہوں۔یہ سبزیوں مثلاً پالک،گوبھی،شلغم ،مولی،چقندر،پھلوں میں،دودھ۔مکھن، گردہ،جگر میں
موجود  ہوتا ہے۔یہ وٹامن حرارت سے بہت کم متاثر ہوتا ہے۔ اس کی موجودگی انسانی جسم میں
قوت  مدافعت پیدا کرتی ہےجس سے متعدی بیماریو ں سے انسان محفوظ ہو جاتا ہے۔وٹامن اے
کم ہونے کی صورت میں اختلاج قلب،تنگی نفس،روز کوری،شب کوری ،حفقان بصر شدید کے
امراض  جاتے ہیں۔
انسانی جسم میں وٹامن اے اگر کم ہو بصارت میں کمزوری کے علاوہ صعف عامہ کا عارضہ
لاحق ہو جاتا ہے۔اور متعدی بیماریوں کو قبول کرنے کی قوت بڑھ جاتی ہے۔اس کا دوسر ا  نام اینٹی
انفیکٹو وٹامن ہے۔یہ بازار میں مل جاتا ہےاس کا نام پری پین ہے۔

وٹامن ڈی
.............
یہ وٹامن حیوانی روغنیات میں کاڈ مچھلی  کے جگر کا تیل،انڈے کی زردی،دودھ،مکھن اور پینر
میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ان حیاتین               کا سب سے بڑا مقصد  جسم میں چونے اور فاسفورس کو 
جزو بدن بناتا ہے۔غذا میں وٹامن کے نہ ہونے کی صورت میں بہت سے عارضے پیدا ہو 
جاتے ہیں۔مثلاً ہڈیوں کا ٹیڑھا پن ،دانتوں کے امراض، عورتوں کو حمل اور دودھ پلانے کےزمانہ
میں ان حیاتین کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں اور بڑوں میں جو بیماریاں کمی وٹامن ڈی
سے پیدا ہوتی ہے۔وٹامن ڈی استعمال کرنے سے وہ دور ہو جاتی ہے۔                                                                       

وٹامن اے اور وٹامن ڈی میں فرق
.....................................
کارڈ مچھلی کے تیل کو گرم کرنے سے وٹامن   اے ضائع ہو جاتا ہے جبکہ  وٹامن ڈی   قائم ودائم
رہتا   ہے۔                                 وٹامن اے سورج کی شعاعوں سے بھی ضائع            ہو جاتا ہے۔ اور وٹامن ڈی ضائع نہیں
ہوتا۔بلکہ بڑھ جاتا ہے۔
اس وٹامن کو اینٹی ریکی ٹک وٹامن کہتے ہیں اس کی کمی سے جسمانی ہڈیاں نرم ہو کر ٹیڑھی ہو
 جاتی ہیں۔اس کا بکثرت استعمال مضر صحت کا سبب بنتے ہیں یہ وٹامن  بازار میں سے بھی مل
جاتے ہیں۔

وٹامن ای
...................
 یہ وٹامن حرارت سے ضائع نہیں ہوتے مگر چربی  میں حل ہو جاتے ہیں۔یہ گندم کے بیج میں
بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ    یہ سبز  اور مکھن  مکئی میں موجود ہوتا ہے۔ اس  
وٹامن کی کمی سے سلسلہ تناسل ختم  ہو جا تا ہے۔یعنی مردوں میں عقر                      اور خصیے کا نیچے اترنا،عورتوں
میں اسقاط حمل    اسی وٹامن کی  کمی سے وقفہ پزیر ہوتا ہے۔

وٹامن کے
..............
مختلف قسم کے  سبزیوں میں یہ وٹامن بکثرت پایا جاتا ہے۔ مگر یہ پالک ،گوبھی،ٹماٹر،  گاجر
کے پتوں اور  سبزیاں اور پھلوں سویا بن کے تیل اور سمندری گھاس  میں بھی پایا جاتا ہے حرارت اس
پر اثر انداز نہیں ہوتی۔یہ وٹامن جگر کے فعل کو درست رکھنے اور بہتے ہوئے خون کو جمنے میں مدد
دیتا ہے ۔حاملہ عورتوں کو زچگی سے قبل یہ وٹامن استعمال کرا دیا جائے۔تو بچے کے لیے جریان
خون کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔یعنی خطرہ ٹل جاتا ہے۔ اس وٹامن نے لاکھوں نوازئیدہ بچوں اور
ماؤں کو بچایا ہےاس وٹامن کو معلوم کرنے  والے کو نوبل پرائز ملا ہے۔اس کو یرقان،سدی رقت
خون جریان خون بعدازولادت جریان خون بعد آپریشن  مزمن شیور جلدی میں استعمال کرنے  سے
نہایت کامیاب ثابت ہوتا ہے۔

وٹامنز
.............
وٹامن کا نام سب سے پہلے مشہور ماہر غذا ڈاکٹر فنک نے 1914ء میں استعمال کیا تھا۔اس
سے پہلے وٹامن کے متعلق صرف اسی قدر ہی معلوم ہو سکا تھا کہ ان اجزاء کی عدم موجودگی جسمانی
صحت اور نشونما پر  برا اثر ڈالتی ہے۔ لیکن اب سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ سائنس دان وٹامن
کو کھانے کی مختلف اشیاء سے خالص صورت میں علیٰحدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ وٹامنز پانی میں حل ہو جاتے ہیں۔

وٹامن
.........
یہ وٹامنز  (حیاتین) کا ایک بہت بڑا مرکب    ہے۔اس میں 12 مختلف ساخت اور افعال
رکھنے والے وٹامنز شامل ہوتے ہیں۔یہ جوہر پیچیدہ ہے اور تمام وٹامنز  (حیاتین) سے پہلے
دریافت ہوا تھا۔اس وٹامن کے جو اجزاء دریافت ہوئے ہیں کہ وہ زیل میں تحریرکر دئیے ہیں۔
1۔وٹامن                     ------ B1
2۔وٹامن------ B2
3۔وٹامن------B3
4-وٹامن------B4
5۔وٹامن------B5
6۔وٹامن------B6
7۔وٹامن------B7
8-وٹامن------B8
9-وٹامن------B9
10-وٹامن-----B10
11-وٹامن-----B11
12-وٹامن-----B12
وٹامن                 B1 
.............
اس وٹامن کا کیمیائی نام تھایامین اورا نیوارین بھی ہے۔اس کے مختلف نام
ہیں۔تھایامین اینٹی نیورے ٹک وٹامن ،غذا میں    اس کی کمی سےمختلف امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ 
مثلاً ضعف المعاء،قبض،اعصابی سوزش، استسقاء اور آنکھوں کے  عضلات مفلوج ہو جاتے ہیں۔
بینائی سے انسان محروم ہو جاتا ہے۔ذہنی انتشار ظاہر ہونے لگتا ہے۔ہاتھ پاؤں سوجھ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ فالج (استرخا) رعشہ،لقوہ، حاملہ کی شدید قے،بھوک نہ لگنا  یا کم لگنا،ضعف قلب،
نقصالدم دائمی قبض اور بیری بیری کے واسطے فائدہ بخش ہے۔اس وٹامن کی  کثرت،گوشت اور
گیہوں میں پائی جا تی ہے۔یہ وٹامن سالم اناج   میں پایا جاتا ہے۔مونگ  پھلی کے تیل میں بھی اس
کی مقدار کافی ہوتی ہےگندم کے دانے  کا وہ حصہ جس سے بالی  نکلتی ہے۔اس کا سرچشمہ ہے۔دودھ
بالائی اترا ہوا،سنگترے،مٹر ،پالک ،چوزہ،مچھلی،گوبھی،لوبیا،سیب سرخ،مرچ،شلغم،چقندر شکر
قندی،آڑو،پینر اسکے بہترین ذرائع ہے۔

وٹامن                                                 B2
...............
اس کا کیمیائی نام رایبو فلمون ہے۔غذا میں کمی  کی صورت میں باچھیں پک جانے کا عارضہ
ہوتا ہے۔ ہونٹوں پر خراشیں پڑ جاتی ہے۔زبان سوجھ جاتی ہے۔ اور زخم ہو جاتے ہیں جلد پر  اور ناک
کے قریب سرخ چھلکے سے بن  جاتے ہیں۔اور ناک خشک رہتی ہے۔ آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑ
جاتے ہیں۔بال جھڑنے لگتے ہیں خصیوں میں ورم پاؤں میں ورعد کے  امراض ہو جاتے ہیں یہ پانی
میں حل ہو جاتے ہیں۔ اور حرارت سے ضائع نہیں ہوتے ۔ترشی  کی شمولیت اس کو مزیدار محفوظ کر دیتی
ہے۔یہ وٹامن،کلیجی،گردے،جگر،دل،اناج،مونگ پھلی،گوشت،دودھ،مچھلی،انڈا، مرغی،پتوں
والی سبزی،سالم گیہوں کے دانے ،شلغم کے پتے،ہرے پیاز ،پالک   اور سرسوں کا تیل قابل ذکر ہیں۔
روشنی سے یہ تلف  ہو جاتی  ہے۔یہ ٹیکہ اور گولیوں کی صورت میں بازار میں موجود ہے۔

وٹامن B3
...............
کیمیائی نام نکو ٹینک ایسڈ ہے۔اس کا ایک اور نام نیاسین بھی ہے۔پانی میں حل ہو جاتا ہے۔
حرارت سے ضائع  نہیں ہوتا ہے۔کاربوہائیڈریٹس والی غذاؤں، چکنائیوں اور  پروتینی ترشوں
کے استعمال میں مدد دیتی ہے۔ اس کو   اینتی پلیگر                                             اوٹامن سے بھی پکارا  جاتا ہے۔اس کی کمی مرض پلیگر
کا باعث بنتی ہے۔بھوک کی کمی ہوجاتی ہے۔زبان سرخ اور اس پر خراشیں  پڑ جا تی ہے۔جلد،
نظام انہضام،دماغ متاثر  ہو جاتا ہے۔اسہال کا مرض ہو جاتا ہے۔مریض وہمی و جنونی سا ہو جاتا ہے۔
حافظہ کمزور اور مالیخولیا کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہے۔جنسی خواہش ندار، پیشاب کا جل کر  آنا، عورت
میں  حیض کی بے قاعدگی اور وزن میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

وٹامن B4
...........
انسانی جسم کے عضلات میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے۔گندم اور انڈے اس کی صحیح خوراک
ہے۔

وٹامن  B5
...........
اس کا کیمیائی نام پینٹو تھینک ایسسڈ ہے۔اس کی کمی  سے عصبی نظام متاثر ہو جاتا ہے۔غذا میں
اس کی کافی مقدارمیں قوت برداشت پیدا کرتی ہے۔جو سردیوں کی سختی برداشت کرنے کی ہمت
پیدا کرتا ہے۔کلاہ گردہ ہاضمے کی نالی او ر آلات تنفس بھی متاثر ہوتے ہیں۔اس کی کمی وقت سے
قبل بال سفید کر دیتی ہے۔پاؤں میں جلن پیدا ہوتی ہے۔
یہ وٹامن جگر کی بےقاعدگی کو رفع کرتا ہے۔جلدی امراض اور آنتوں کی کئی بیماریوں کو دفع کرتا
ہے۔ وٹامن بکرے کی ران کا گوشت،خمیر،انڈے،گردے،کلیجی،دل،بھیجا،کھنبی،گیہوں جو
مونگ پھلی،سویا بین ہرے پتوں والی سبزیاں گریاں،مغز،سالم اناج،میں پایا جاتا ہے۔پکانے یا
بھاپ پر گرم کرنے سے اس  کی قلیل مقدار ضائع ہو جاتی  ہے۔

وٹامن  B6
...........
اس وٹامن کا نام پیری ڈوکسن ہے۔اس کو عضلاتی تکلیفوں میں استعمال
کرتے ہیں۔اس کی کمی سے بچوں  کو  تشنج  کے دورے پڑ جاتے ہیں۔ بڑوں میں گرمی لگنا،اعصابی
سوزش زبان ہن اور ہونٹوں کی سوجن جلد  کی خشکی یا داغ دھبے،رنگ پیلا پڑنے اورخون کی کمی کی
شکا ئتیں پیدا ہو جاتی ہے۔اور بعض مریضوں کے دانت گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ وٹامن انڈہ،
گوشت،کلیجی جگر ہری  سبزیوں خمیر سالم خاص کر اناج  کے چھلکوں میں اس کی بہت مقدار پائی
جاتی ہے۔حمل کے  دنوں میں اس کی ضرورت اور بڑھ جا تی ہے ۔یہ ایام حمل کے دوران قے اور
درد شقیقہ (آدھے سر کی درد) کو دور کرتا ہے۔خون کی کمی کو  فائدہ دیتا ہے۔شدید حالات میں
50 تا 100 ملی گرام عضلاتی انجکشن دیں یہ بازار میں ان ناموں سے مل سکتا ہے۔ پائرے
ڈاکسن  اور بنڈن

وٹامنB7
.............
اس وٹامن کا کیمیائی نام بائیوٹن ہے۔اس کی کمی کی وجہ سے ہمارے جسم  میں 
  خون کے سرخ ذرات میں ب حد کمی واقع ہو  جاتی ہے۔نتیجتاً  بعض دماغی عارضے بھی پیدا ہو
جاتے ہیں۔زبان چھوٹی اور زرد رنگ کی ہو جاتی ہے۔جلد کی سوزش ہو جاتی ہے۔اس وٹامن کا سر
طان سے بھی تعلق تسلیم کیا گیا ہے۔اس وٹامن کی کمی  سے انسان بے ہمت اور
سست ہو جاتا ہے۔ اور ملیریا کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔بھوک ندارد، متلی اور قے کی شکایت
اس کی قدرتی ذرائع یہ ہیں۔سیب ،کیلا ، لوبیا،گائے کا گوشت،چقندر،گیہوں،بند گوبھی،
مرغی کا گوشت،مکئی،انڈا، گائے کا دودھ،گڑ،پیاز،مٹر،پالک، شلغم ،گاجر،پینر،وغیرہ۔

وٹامن B8
.............
کیمیائی نام فولک ایسڈ، فولک ایسڈ تندرستی قائم رکھنے کے    کے لیے روزانہ نصف گرام سے
دو ملی گرام تک درکا ر ہے اگر پوری مقدار مل جائے  تو ہاضمہ درست ہے۔خون کے خلیوں کی تولید 
ہوتی رہتی ہے۔اور ہڈی کا گودا صحیح حالت میں رہتا ہے۔یہ وٹامن خون کے سرخ گودے کی صحت
اور فعل کے لیے ضروری ہے۔اس کی کمی خون کی کمی کا باعث بنتی ہے۔منہ آجاتا ہے۔زبان    
سوج جاتی ہے۔       دست آنے لگتےہے۔بدن کمزور ہو جاتا ہے۔اور ہاتھ پاؤں میں سوئیاں سی
چھبنے لگتی ہے۔
یہ خمیر،دودھ گوشت،کلیجی،گردے،جگر،ہرے پتوں والی سبزیاں گھاس میں بھی یہ وٹامن
ہوتا ہے۔

وٹامن B9
.............
کیمیائی نام انیو سیٹال (INOSITAL) ہے یہ وٹامن بی کمپلیکس کے  کنبے کا  ایک فرد ہے۔اس
کی کمی گنجا پن پیدا کرتی ہے۔ہاضمہ اثر انداز ہوتا ہے خمیر کلیجی اور گوشت  میں پائی جاتی ہے۔

وٹامن   B10
.............
اس کا  کیمیائی نام کولین (CHOLINE)ہے۔اس وٹامن کی کمی کے  باعث جسم کی چربی
ٹھیک تقسیم نہیں ہوتی۔اس کی کمی جگراور گردوں پر  اثر انداز ہو تی ہے۔بیماریوں کے جراثیم کی
مدافعت کر نے کی طاقت کمزور پڑ جاتی ہے۔  کو لین بچو ں  کی نشوونما بیضہ تولید کے لیے لازمی چیز
ہے۔یہ عورت کی چھاتیو ں میں         بچے کی خوراک  یعنی دودھ تیار کرنے میں مدد دیتا ہے۔خون کے
دباؤ۔دل کی کمزوری اور ورم معدہ کے لیے بھی  بہت اچھی چیز ہے۔اس وٹامن کی کمی مندرجہ
ذیل اشیاء سے حاصل کی جا سکتی ہے۔اناج اور سبزیاں مثلاً جو گیہوں،بند گوبھی،گاجر،مٹر ،مچھلی
انڈے،گردے،کلیجی،پیاز، اجوائن     پالک۔ان میں بہترین ذریعہ بکرے کا مغز ہے۔

وٹامن   B11
.............
کیمیائی نام پیرا  مینو بینز وٹک ایسڈ (Para amino Benzic Acid )ہے۔
اس کی کمی سے سر کے بال سفید ہو جاتے ہیں۔ اور آنتوں میں رہنے والے مفید جراثیم کا عمل بری
طرح متاثر ہوتا ہے۔اس کی مناسب مقدار میں موجودگی ٹی بی کے جراثیم کو ہلاک کر دیتی ہے۔اور
سورجی شعاعوں کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔اس کے قدرتی ذرائع اناج،سبزیاں،انڈا
دودھ،خمیر،کلیجی ہیں۔ ان کے استعمال                             سے                                                                                                                                                                                                                              دھوپ کی شدت اور تمازت برداشت کرنے کی طاقت
کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
وٹامن   B12
.............
یہ وٹامن 1950ءمیں  حاصل کیا گیا ۔نفث الدم مہلک کا شافی علاج لیور ایکسٹر یکٹ کے 
استعمال  کو سمجھا جاتا ہے۔اس جوہر میں سے ایک سرخ رنگ کا جوہر دریافت کیا گیا ہے۔جسے
وٹامن  بی 12 کا نام دیا گیا ہے۔یہ جوہر مہلک قے  الدم،ضعفد اعصاب سنگر ذہنی کا شافی علاج ہے۔
اس جوہر کا سلوشن گلابی رنگ کا ایک سی سی  کے ایمپیول میں  بکتا ہے  مختلف طاقتوں
(100-250-1000)مائیکروگرام میں ہوتا ہے۔یہ ٹیکہ تیسرے یا چوتھے روز   عضلہ میں
لگاتے ہیں۔اس کے تجارتی نام سائی ٹامن ہے۔جنرک نام سائنو کو بیلامن
یہ وٹامن ان اشیاء کو استعمال کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔
کلیجی،جگر،گردہ،دودھ،گوشت،سویابین اور دل وغیرہ۔

وٹامن سی
............
کیمیائی نام اسکوریک ایسڈ

وٹامن سی کی کمی کے اثرات
..........................
چہرے پر جھڑیاں  پر جانا ہڈیاں اور دانتوں کاکمزور  ،مسوڑھوں سے خون بہنا،گنٹھیا اور
جوڑوں کی تکلیف ،وزن میں کمی ہونا ،قوت مدافعت    کا ضعیف ہو جا نا،   زخموں کا جلدی مند مل نہ ہونا
ان تمام مشکلات کوسکروی کہتے ہیں۔اس لیے اسے اینٹی سکور بوٹک وٹامن کہتے  ہیں۔

وٹامن سی کی افادیت
.........................
متعدی   امراض  سے محفوظ رکھنا۔اعصابی کو مضبوط بنا نا۔نظام ہاضمہ کی اصلاح کرنا وائرس
کے امراض مثلاً نزلہ اور زکام کی روک تھام  کر نا،عو رتوں میں حیض کی  باقا  عد  گی،دردزہ کی حالت
میں نفع بخش  التہاب مفاصل اور لتہاب جلدی میں  فائدہ مند چنبل کالی کھا نسی کے لیے تیر بہدف۔

وٹامن سی کی موجودگی
.....................
یہ وٹامن تازہ پھلوں اور سنگترہ کینوں اور امرود اور سبزیوں میں گوبھی شلغم ٹماٹر لیموں میں 
بکثرت پایا  جاتا ہے۔ مگر دالوں اور دودھ میں اس کی مقدار کم  ہوتی ہے۔

وٹامن کا استعمال
...............
2/5 تا 1/2 کے لیے اور علاج کے لیے             3 تا 83 گرین استعمال میں      لائی جاتی ہے۔

وٹامن پی کی کمی کے اثرات
........................
 پر  پیورا اور میمو فعلیاں کا پیدا ہونا ،در د گردہ اور بعض دیگر امراض بڑھ جانا اور عروق  شعریہ
سے خون کم کرنا۔

وٹامن پی کی افادیت
..................
جلدی امراض، ذیا بیطس،فشار الدم        اور گنٹھیا  وغیرہ سے محفوظ رکھنا اور فائدہ دینا۔

وٹامن  پی کے قدرتی ذرائع
........................
سیب، خوبانی،چقندر،انگور،گریپ فروٹ،لیموں،خشک  آلو بخارا،پالک اخروٹ،
وغیرہ۔

No comments:

Post a Comment